گذشتہ دنوں پٹن ،نوگام اور بٹہ مالومیں ایک دلخراش حادثے رونما ہوے جن میں نصف درجن انسانی جانیں تلف ہوگئیں ۔ان حادثات میں بہت سے افراد زخمی ہوگئے جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہوگئے ہیں ۔میڈیا اور خاص طور پر اخبارات میں بار بار ٹریفک نظام کی بدتر صورتحال کے بارے میں لکھا جارہا ہے کہ پوری وادی میں ٹریفک نظام ابتر ہوچکا ہے اور یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ٹریفک محکمہ حادثات کی روک تھام کے لئے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کررہا ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے اور بار بار مشاہدے میں آرہا ہے کہ محکمہ ٹریفک کے اہلکار چالان بک ہاتھ میں لے کر اس تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی ڈرائیورہاتھ آجاے اور کب اس کا چالان کٹ جاے ۔ا س سے ایسا لگتا ہے کہ محکمہ ٹریفک کی سرگرمیاں صرف چالان کاٹنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ آج تک اس محکمے نے کبھی بھی تیز رفتاری پر کسی ڈرائیور کے خلاف چالان نہیں کاٹا ۔کسی ڈرائیور کو جیل کی ہوا نہیں کھانی پڑی ۔اگر محکمہ تیز رفتاری اور رانگ سائیڈ سے چاہئے چار پہیوں والی یا دو پہیوں والی گاڑی چلانے پر چالا ن کاٹتا یا ڈرائیوروں پر جرمانہ عاید کرتا تو قیمتی جانیں نہیں چلی جاتیں ۔مثلاً ایک ڈرائیور کے خلاف اس بنا پرچالان کاٹاجاتا ہے کیونکہ اس کے پاس کبھی لائسنس نہیں ہوتی ہے یا کوئی دوسری دستاویز بشمول انشورنس یاپولیوشن نہ ہونے پر اس کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے لیکن آج تک کبھی بھی ایسے ڈرایﺅر کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی جو تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے لوگوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ بنا رہتا ہے ۔پٹن کا حادثہ اس کی ایک مثال ہے کہا جارہا ہے کہ مخالف سمت سے آنے والا ڈرائیور اس تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلارہا تھا کہ زور دار ٹکر سے گاڑی چکنا چور ہوگئی اور اب تک تین معصوم جانیں چلی گئیں ۔اگر محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دیتا تو ایسے حادثات رونما نہیں ہوتے ۔اگرچہ گاڑیاں چلانے والوں کے دستاویز یعنی لائیسنس ،اونر شپ ،پولیوشن وغیرہ کی چکنگ بھی لازمی ہے لیکن اہم مسلے کو بھول کر یا نظر انداز کرکے صرف کاغذات کی چکنگ اور جرمانہ عاید کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ شام ہوتے ہی جب نوانٹری ختم ہوجاتی ہے سینکڑوں ٹپر تعمیراتی میٹرئیل لے کر شہر میں داخل ہوتے ہیں اور وہ اس قدر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہین کہ سڑکوں پر چلنے سے ڈر لگتا ہے ۔آج تک ایسے ڈرائیوروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے ۔صرف یہ دیکھا جارہا ہے کہ ڈرائیور کے پاس کاغذات ہیں یا نہیں ۔محکمے کے اس طرز عمل کی وجہ سے ہی حادثات رونما ہوتے ہیں اگر شہر میں شام کو صرف دو تین اہلکار ہی ڈیوٹی دیتے تو ٹپر ڈرائیور اس تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کرتے جس تیز رفتاری کا مظاہر ہ وہ کرتے رہتے ہیں ۔آج کل کچھ سرپھر ے نوجوان موٹر سائیکلوں پر کرتب بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ گھروں میں نہیں بلکہ بیچ سڑکوں پر کرتب بازی کرتے ہیں لیکن مجال محکمے نے کسی کے خلاف کوئی کاروائی کی ہو۔فور شور روڈ پر اور بلیوارڈ پر روزانہ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور محکمہ ٹریفک کے اہلکار اس سے باخبر ہوتے ہیں اس کے باوجود عملی کاروائی نہیں کی جاتی ہے جبکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ کرتب بازی کا مظاہرہ کرنا گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔غرض محکمہ ٹریفک کے اہلکار جو کچھ کررہے ہیں وہ حادثات کی ذمہ داریاں لینے سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔