آج بابائے صحافت خواجہ ثنا اللہ بٹ کی پندرہویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے ۔خواجہ مرحوم جیسا کہ قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ اعلیٰ پایہ کے صحافی گذرے ہیں جنہوں نے جموں کشمیر میں صحافت کے پیشے کو بلندیوں پر پہنچادیا اور ان کے جو ہم عصر صحافی تھے ان کو اسی طرح کی ترغیب و تربیت دی کہ انہوں نے بھی اس پیشے کے ساتھ انصاف کیا ۔لیکن اس کا سہرہ صرف خواجہ صاحب کے سر جاتا ہے جنہوں نے وادی میں صحافت کو اعلیٰ مقام دلوانے میں کامیابی حاصل کرلی ۔آج کے دور میں اخبار نویسی کو جو سہولیات فراہم ہیں اُس دور میں جب انہوں نے اخبار کی اشاعت شروع کی تو اس طرح کی کوئی سہولیات میسر نہ تھیں لیکن خواجہ صاحب کی جرات مندی کی داد دینی پڑے گی جنہوں نے پختہ عزم اور ہمت و حوصلے سے کام لے کر ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اخبار کی اشاعت جاری رکھی ۔یہ پچاس ساٹھ کی دہائی کا دور تھا جب بابائے صحافت نے اخبار کو زبردست مشکلات کے باوجود آسمان کی بلندیوں پر لے جاکر ان جعلسازوں ،بے ایمانوں اور رشوت خور طبقے کی نیندیںحرام کرکے رکھدیں جو کشمیری عوام کی لاعلمی ،سادگی اور شرافت کا ناجائیز فایدہ اٹھاتے ہوئے ان کا بے تحاشہ استحصال کیاکرتے تھے ۔کشمیری عوام کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے لئے خواجہ ثنااللہ بٹ ایک ڈراونے خواب سے کم نہ تھے جنہوں نے ان سب کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔انہوں نے اپنے اخبار یا اپنے آپ کی پروا نہ کرتے ہوئے حقایق سے پردہ ہٹایا ۔بے ایمان سیاستدانوں کو آئینہ دکھایا ۔عوام کو لوٹنے والے تاجروں کے خلاف مہم چلائی ،عوامی مسایل و مشکلات کو اجاگر کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حکمران خواجہ ثنا اللہ بٹ کا اخبار آفتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی تعمیراتی اور ترقیاتی کام شروع کرتے تھے کیونکہ وہ ان خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے تھے جو ترقیاتی یا تعمیراتی کاموں میں آڑے آتی تھیں اسلئے حکمران اسی حساب سے کام شروع کرواتے تاکہ کسی بھی جگہ کوئی ایسی بات نہ ہوجاے جس سے لوگوں کو مشکل پیش آجاے ۔صحافت کو قابل مطالعہ بنانے کا سہرہ بھی خواجہ صاحب کے ہی سر جاتا ہے وہ کبھی بھی یاوہ گوئی سے کام نہیں لیتے تھے ۔انہوں نے اپنی تحریریوں میں معیار کو اولین ترجیح دی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی آفتاب انتظامیہ اسی نہج پر چلنے کی کوشش کرتی ہے اور بابائے صحافت نے صحافت کے حوالے سے جو راستہ دکھایا اسی پر گامزن رہنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔نوجوان نسل کو شاید ہی معلوم ہوگا لیکن یہ سچ ہے اور جیسا کہ سنا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی جاندار اور شاندار تحریروں کی بنا پر اس وقت کے حکمرانوں کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کیا ہے ۔کیونکہ حکمران جو فیصلے لیتے تھے اگر خواجہ صاحب کو یہ لگتا تھا کہ یہ فیصلہ جات عوام کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوسکتے ہیں تو وہ اس کے خلاف اس طرح لکھتے اور ایسی شاندار تجاویز بھی پیش کرتے جس سے حکمران اپنے فیصلہ جات تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ۔بہر حال آج وہ ہمارے درمیان نہیں اور آج یعنی 25نومبر کو ان کی برسی منائی جارہی ہے ۔اس موقعے پر ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ عوامی مفادات کے بارے میں کوئی سمجھوتہ کئے بغیر تمام جائیز عوامی مسایل کی نشاندہی کر کے ان کو حل کروانے کی کوشش کی جاے گی جس طرح بابائے صحافت خواجہ ثنا اللہ بٹ کرتے تھے ۔