لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ دنوں اس بات پر زور دیا کہ دیہی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ایک کو مقدور بھر کوششیں کرنی چاہئے کیونکہ جموں کشمیر کی خوشحالی اور ترقی کا راستہ گاﺅں سے ہی گذرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دیہی آبادی اور زرعی ترقی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بروے کار لانے کی حد سے زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔منوج سنہا نے اس دوران ایک خاص بات یہ بتائی کہ آج دیہی علاقوں میں ترقی کا مقصد صرف خوراک کی پیداوار مین خود کفالت نہیں بلکہ پیداوار اور آمدنی میں اضافہ اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانا ہے ۔سال 2019اگست کے بعد یہاں جو نظام قایم ہوا اس میں سرکاری سطح پر دیہات کی طرف خصوصی توجہ دی جانے لگی تاکہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ بااختیار بنائے جاسکیں اور آج صورتحال یہ ہے کہ دیہات کافی حد تک آگے بڑھ گئے ہیں اور جیسا کہ ایل جی نے از خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دیہی آبادی اب برابر آگے بڑھتی جارہی ہے ۔دیہی انفراسکٹریچر ،خود روزگار اور زرعی معاشرے کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوے ایل جی نے کہا کہ متعلقہ محکمے کی پالیسیاں عملیت پسندی پر مبنی ہونی چاہئیں تاکہ دیہی صلاحیتوں کو بروے کار لایا جاسکے ۔جہاں تک لیفٹننٹ گورنر کے اس بیان کا تعلق ہے تو یہ بات صحیح ہے کہ دیہی علاقوں میں ترقی کا مقصد صرف خوراک کی پیداوار میں خود کفالت نہں بلکہ پیداوار اور آمدنی میں اضافہ اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانا ہے ۔آج دیہات کے رہنے والے کسی بھی طرح ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے والے نہیں کیونکہ سرکاری طور پر دیہات میں ان تمام ترقیاتی سکیموں کو لایا گیا ہے جن سے گاوں والے بااختیار بن سکیں ۔جہاں تک زراعت کا تعلق ہے تو گاﺅں والوں نے دقیانوسی اور روائیتی طریقہ کاشتکاری کو کب کا ترک کیا ہے اور نئی ٹیکنالوجی اپنانے سے نہ صرف وقت بھی بچ جاتا ہے ۔پیسے بھی مقابلتاًزیادہ خرچ نہیں ہوتے ہیں اور فصل بھی زیادہ اگتی ہے اس طرح آمدنی میں بھی پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔لیکن اس وقت دیہی علاقوں میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو آگے چل کر سب کے لئے پریشانیوں کا باعث بن جاتی ہے یعنی گاوں والے اب زمینداری کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ وہ سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔بعض تو بابو بننے کے چکر میں زمینیں بیچ رہے ہیں ۔ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس قدر خود پر ظلم ڈھارہے ہیں کیونکہ سونا اگلنے والی زمین بیچ کر وہ عقلمندی کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زمین بیچ کر ان کو وقتی طور پر راحت تو مل سکتی ہے لیکن جب اس کے نتایج پر نظر ڈالی جاتی ہے تو آگے تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے ۔اس لئے دیہات میں رہنے والے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ سونا بیچ کر لوہا خریدنے کی کوشش نہ کریں بلکہ زرعی سیکٹر کو بڑھاوا دے کر وہ ہر چیز خرید سکتے ہیں ۔ان کی ہر تمنا پوری ہوسکتی ہے ۔ انہیں اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ترقی کے اس دور میں زرعی سکیٹر کس قدر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جس قدر زرعی سیکٹر مضبوط ہوگا اسی قدر وہ بااختیار بن سکتے ہیں ۔