وادی کشمیر میں ہوا کا معیار کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہئے ؟اس بارے میں لوگ زیادہ فکر مند نہیں اور نہ ہی سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بلیٹن جاری کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی جاتی ہے ۔دہلی میں اس وقت ہوا کا معیار انتہائی خراب ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔سرکاری طور پر کہا جارہا ہے کہ دہلی کی ہمسایہ ریاستوں اتر پردیش ،ہریانہ اور پنجاب میں پرالی یعنی فصلوں کی سوکھی ہوئی گھاس جو فصلیں کاٹنے کے بعد زمین پر ہی رہتی ہے جلانے سے ہوا میں دھواں بھر جاتا ہے اور جلی ہوئی پرالی کے چھوٹے چھوٹے ذرات اس میں مل جاتے ہیںجس سے ہوا میں کثافت بھر جاتی ہے جو انسانی پھیپھڑوں کے لئے زہر سے کم نہیں چنانچہ پرالی جلانے پر پابندی عاید کرنے کے باوجود کسان اسے جلاتے ہیں جس سے دہلی میں ہوا کا معیار کافی حدتک گھٹ گیا ہے اب وہاں حکومت بھی پریشان اور لوگ بھی ۔کریں تو کیا کریں ۔ہوا کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی ایک جگہ ٹھہر جاے اور اس میں موجود کثافت وسیع علاقے کو نقصان پہنچاسکتی ہے ۔اسی طرح وادی کشمیر میں بھی ہوا کا معیار ویسا نہیں رہا جو دو تین دہائی پہلے تھا ۔صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل کو سکون اور دماغ کو راحت پہنچاتی تھیں لیکن آج صبح و شام کی ہوا میں اچھن سے اٹھنے والی گندگی اور غلاضت کی بد بو سے پورا ماحول پراگندہ ہورہا ہے ۔صبح اور شام کی سیر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ماسک لگا کر نکلتے ہیں کیونکہ بدبو سے دماغ پھٹ جاتا ہے ۔اسی طرح جے کے پولیوشن کنٹرول کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے راج باغ میں ایسی جدید ترین مشین نصب کی ہے جو ہوا کا معیار جانچتی ہے اور حال ہی میں اس مشین نے وادی میں ہوا کے معیار کو زیادہ اطمینان بخش قرار نہیں دیا ہے ۔اگرچہ ابھی تک وادی میں دہلی جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے لیکن آہستہ آہستہ ہم اس جانب بڑھتے جارہے ہیں گذشتہ کئی برسوں سے موسم خزان میں درختوں کے پتے جلانے پر پابندی عاید کی گئی تھی لیکن اس سال بہت سی جگہوں پر لوگوں کو چنار کے پتے جلاتے ہوے دیکھا گیا بہت سے لوگ اپنے باغوں میں بھی پتے اور ٹہنیاں توڑ کر جلاتے ہیں حالانکہ میونسپلٹی کے وارڈ وں کے افسرون کو یہ ہدایت پہلے ہی دی گئی تھی کہ وہ کسی بھی صورت میں لوگون کو پتے ،ٹہنیاں اور گھاس جلانے کی اجازت نہ دیں لیکن لوگ ہیں کہ اس کی پروا نہ کرتے ہوے گھاس پھوس ،پتے وغیرہ جلا کر ہوا کے معیار کو آلودہ کررہے ہیں اس کے علاوہ یہاں ٹریفک کا اتنا زیادہ دباﺅ بڑھ گیا ہے کہ گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے ہوا کا معیار گھٹ رہا ہے کیونکہ اس میں کاربند ڈایکسائیڈ کی کی بھاری مقدار ہوتی ہے ۔یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے یہاں ہوا کا معیار عمدہ ہونا چاہئے تھا لیکن یہاں بھی ہوا میں کثافت بڑھتی جارہی ہے جس کا نہ صرف سرکار کو سنجیدہ نوٹس لینا چاہئے بلکہ لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سرکا ر ہی کو ہر معاملے میں مورد الزام ٹھہرانے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم ان ذمہ داریوں اور فرایض کو نبھانے میں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہے ہیں جو بحیثیت شہری ہم پر عاید ہیں۔