موجودہ دور میں جبکہ بازار میں مہنگائی عروج پر ہے اور ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اس دوران کھانا پکانے کی گیس اور ڈیزل اور پیٹرول یعنی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے غریب لوگوں کی کمر توڑ دی گئی ۔رسوئی گیس فی سلینڈر کی قیمت میں اچانک پچاس روپے اضافے کو عوام نے ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ بیک وقت اتنا اضافہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا ۔عوامی حلقے رسوئی گیس فی سلینڈر کی قیمتوں میں اضافے کو ان کی کمر توڑنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو تین روپے اضافہ کیا جاتا تو کسی حد تک لوگ اسے برداشت کرلیتے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ فی سلینڈر پچاس روپے کا اضافہ حد سے زیادہ ہے جس پر نظر ثانی کا مطالبہ زور پکڑنے لگاہے ۔اس سے قبل یہاں اپریل کے اوایل میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھادی گئی تھیں لیکن اب پھر سے پیٹرولیم مصنوعات پر دو روپے فی لیٹر ایکسائیز ڈیوٹی بڑھادی گئی ۔سرکاری طور پر بتایا گیا کہ اگر چہ رٹیل قیمتوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا لیکن آج نہیں تو کل لوگوں کو ہی اسی حساب سے پیٹرولیم مصنوعات خریدنی پڑ سکتی ہیں جس حساب سے حکومت اسے خریدتی ہے ۔یعنی اضافی ریٹوں کے ساتھ۔سرکار کی طرف سے گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو حق بجانب قرار دینے کے لئے مختلف دلایل پیش کئے جارہے ہیں لیکن چھرا خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھرے پر گرے کے مصداق اس سب کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑ سکتاہے ۔مرکزی وزیر ہر دیپ سنگھ پوری کا کہنا ہے کہ رسوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اجولا غریب مستفیدین جنہوں نے مفت ایل پی جی کنکشن حاصل کئے ہیں کے علاوہ عام صارفین کو یہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔رسوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کل یعنی 8اپریل سے نافذالعمل ہوگیاہے ۔حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر ایکسائیز ڈیوٹی پر فی لیٹر دو روپے کا اضافہ کیا لیکن رٹیل قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔سرکار کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ قیمتوں میں کمی کے خلاف نافذ کیا گیا ہے جو بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ضروری تھا۔سرکاری حکمنامے کے مطابق پیٹرول پر ایکسائیز ڈیوٹی 13روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر 10روپے کردی گئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں اپریل 2021کے بعد اپنی کم ترین سطح پر آگئی ہیں کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیاں بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی نے کساد بازاری کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے تیل کی طلب مین کمی ہوسکتی ہے ۔بھارت اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے 85فی صد درآمدات پر منحصر ہے ۔جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ حکومت متذکرہ بالا اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کے لئے خواہ کوئی بھی جواز پیش کرے لیکن یہ حقیقت ہے اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتاہے کہ قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے اور جس قدر اضافہ کیا گیا ہے وہ عام لوگوں کی برداشت سے باہر ہے ۔اس وقت کساد بازاری عروج پر ہے ۔ملک کے ہر خطے میں لیکن اگر یہ کہا جاے کہ پوری دنیا میں کساد بازاری کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں اوپر سے ہر چیز کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کیا جارہا ہے ۔ان حالات میں گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عام لوگوں کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں ہوسکتاہے ۔