پرنٹ میڈیا میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شایع کی گئی ہے کہ سرما آنے سے قبل ہی یعنی موسم خزان میں ہی بجلی کی کٹوتی شروع کردی گئی ہے ۔اگرچہ سرکاری طور پر باور کیا جاتاہے کہ نومبر سے اعلانیہ شیڈول کے تحت بجلی کی کٹوتی شروع ہوگی لیکن یہ کیا؟موسم خزان میں ہی محکمہ بجلی نے بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی کچھ اس طرح شروع کی کہ اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتاہے کہ کب بجلی آن ہوگی اور کب طویل رخصت پر چلی جاے گی حالانکہ وادی دنیا کا ایسا پہلا خطہ ہوگا جہاں اپنے اور کارگر وسایل کے باوجود لوگوں کو بجلی سے محروم کیا جاتا ہے ۔ایسا ہر دور میں ہوتا آیا ہے ۔ایک دو برس قبل حکومت نے جب سمارٹ میٹر وں کی تنصیب میں تیزی لائی تھی کے وقت اور بار بار اس بات کااعلان کیا تھا کہ سمارٹ میٹروں کی تنصیب سے لوگوں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جاے گی ۔صارفین نے خوشی خوشی اس اعلان پر یقین کرلیا ۔لیکن اسی فی صد علاقوں میں سمارٹ میٹر نصب کرنے کے باوجود کسی بھی علاقے میں چوبیس گھنٹے پاور فراہم نہیں کیا جارہا ہے ۔پہلے محکمے کے انجنئیرصارفین پر بجلی چوری کے الزام لگاکر اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب کون سی چوری ہوتی ہے کیونکہ اس وقت بھی جبکہ اسی فیصد سے زیادہ سمارٹ میٹر نصب کئے گئے ہیں بجلی کہاں گئی؟ایک دو برس قبل سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ اس سال سرما میں لوگ برف اور بجلی ایک ساتھ دیکھینگے لیکن افسوس یہ اعلان اعلان کی حد تک ہی محدود رہا ۔اس اعلان کو اب تک کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سرما آتے ہی ندی نالوں میں پانی کی سطح گرنے لگتی ہے اور بجلی کٹوتی ناگزیر بن جاتی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا سمارٹ میٹروں کے ہوتے ہوئے چوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے پھر بجلی کی فراہمی میں خلل کیوں ؟ایک معاصر روزنامے نے محکمہ بجلی کے ذرایع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس وقت قریب 500میگاواٹ بجلی کی کمی ہوئی ہے اور آئیندہ ایام میں اس کے بڑھنے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتاہے ۔محکمہ بجلی کبھی بجلی چوری ،کبھی مون سون اور کبھی بارشوں میں کمی کے لئے بجلی کی کمی کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔یہ کبھی نہیں کہا جاتا ہے کہ بے ہنگم ،غیر منظم اور بے مقصد منصوبہ سازی بجلی کی کمی کی بنیادی وجہ ہے ۔اور بنیادی طور پر جب منظم اور بامقصد منصوبہ سازی ہوگی تو بجلی کی ایسی ابتر صورتحال نہ ہوتی جو اس وقت نظر آرہی ہے ۔قارئین کرام کو یا د رکھنا ہوگا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی جیسی اس وقت ہے تو اس سرما میں گذشتہ برس سے زیادہ گھنٹوں کی کٹوتی ہوگی جو بارہ سے سولہ گھنٹے کی رہی تھی اس سال اس بات کا امکان ہے کہ صارفین کو کبھی کبھار ہی بجلی کے درشن کرائے جائینگے حالانکہ بجلی کے حوالے سے وادی اپنے وسایل سے مالا مال ہے ۔ان وسایل کو بروے کار لاکر جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس پر سب سے پہلے کشمیری عوام کا حق ہے ۔لیکن معلوم نہیں کشمیری عوام کو ہی بجلی کی فراہمی میں مسلسل خلل کا شکار ہونا پڑتاہے جس سے پورا اقتصادی ڈھانچہ بگڑ کر رہ گیا ہے ۔لوگ سرمائی ایام میں زبردست مالی طور پر پریشان ہوتے ہیں جبکہ طلبہ کا قیمتی وقت بھی ضایع ہوجاتاہے ۔