وادی کے طول و عرض سے جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں ان میں بتایا جارہا ہے کہ معصوم بچوں سے سخت کام کروانے کے رحجانات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ بچہ مزدوری کو وباءکی طرح پھیل جانے سے روکنے کیلئے فوری اور موثر اقدامات اٹھانے کے لئے کوششیں نہیں کی جارہی ہیں ۔عام لوگ اس بات پر خفا نظر آرہے ہیں ۔حکومت کی طرف سے بچہ مزدوری کے خلاف سمینار منعقد کئے جارہے ہیں ،سکول بچوں کو لے کر جلوس نکالے جاتے ہیں ۔میڈیا میں بچہ مزدوری کے خلاف عام لوگوں کو جانکاری دلانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے لیکن جب ہم عملی طور پر مشاہدہ کرتے ہیں تو ہر جگہ بچوں کو گاڑیوں کے ورکشاپو ں ،گھروں ،کارخانوں ،اینٹ بٹھوں اور دوسرے مقامات پر مزدوری کرتے تو دیکھتے ہی ہیں لیکن اب بس اڈوں اور مختلف کراسنگس پر بھیک مانگتے ہوئے بھی بچوں کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن سرکار کی طرف سے اس رحجان پر قابو پانے کے لئے صفر حد تک بھی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق وادی میں بچہ مزدوری وبائی اور انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے اور پندرہ برس تک کے بچے اور بچیاں جسمانی محنت و مزدوری کرکے اپنے کنبوں کی کفالت کرتے ہیں ۔اس ایجنسی کے مطابق ارباب و اقتدار اس پر قابو پانے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی اپنانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق سینکڑوں بچے اور بچیاں بچہ مزدوری کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔کمسن بچے اور بچیاں آسودہ حال گھروں میں بطور نوکر اور دایہ کام کرتے ہیں ۔مالکان ان سے کولہو کے بیل کی طرح کام لیتے ہیں لیکن بچہ مزدوری روکنے کے دعویدار یہ سب کچھ جان کر بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت لوگوں کی مالی حالت انتہائی خراب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان بچوں کو کمانے کے لئے میدان میں جھونک دینگے جن کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے دن ہیں ۔اس وقت سرکاری سکولوں میں تعلیم مفت دی جاتی ہے اور سرکاری سکولوں کا معیار اب پرائیویٹ سکولوں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔اسلئے غریبی سے نیچے گذر بسر کرنے والوں کے لئے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے لیکن نہ جانے کیوں وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو بلاوجہ ان مقامات پر چھوڑتے ہیں جہاں وہ بے شک دن کو بیس پچیس روپے کماتے ہیں لیکن وہ علم کے نور سے بے بہرہ رہ جاتے ہیں ۔تہذیب و تمدن کے نام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں رہتا ہے وہ عمر بھر غلامی کی سی زندگی بسر کرتے ہیں ۔انہیں غذائیت سے بھر پور اور پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا ہے اور یہ سچ ہے انہیں عمر بھر لوگوں کے جھوٹے کھانوں پر گذارا کرنا پڑتا ہے ۔حکومت نے غریب بچوں کے لئے سرکاری سکولوں میں وظیفے کی سہولیات رکھی ہوئی ہیں یعنی بچہ جس قدر پڑھنے میں عمدگی اور بہت کارکردگی کا مظاہرہ کرتاہے اسے اسی حساب سے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے ۔بہت سی جگہوں پر خوف و خدا رکھنے والے تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دلاتی ہیں ان حالات میں بچوں سے کام کروانا انتہائی جرم ہے اور پولیس کو اس بارے میں مکمل رپورٹ سرکار کو پیش کرنی چاہئے کہ کہاں اور کس جگہ بچوں سے کام کروایا جاتا ہے ۔اسلئے بہتر یہی ہے لوگ اس بارے میں متعلقہ حکام کو اطلاع دیں کہ کہاں اور کس جگہ بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے اور کن سے بیگار لی جاتی ہے ۔تاکہ اس سلسلے کو روکا جاسکے ۔