اب جبکہ جموں کشمیر کے وزرا کو پورٹ فولیوز بھی تقسیم کئے گئے تو اس سے ان پر بہت زیادہ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں کیونکہ ان کو اس بات کو یادرکھنا چاہئے کہ لوگوں نے ان کو ووٹ دے کر اپنانمایندہ چناہے اور اب یہ ان کے فرایض میں شامل ہیں کہ وہ کس طرح عوام کی جائیز خواہشات ،مطالبات اور مسایل کو حل کرنے کی جانب اپنی پوری توجہ مرکوز کریں ۔عوام کو اب خالی وعدوں سے ٹرخایا نہیں جاسکتاہے کیونکہ وہ زمانہ گذرگیا اب عوام ایک ایک ووٹ کا حساب مانگیں گے یعنی وزرا اور ممبران اسمبلی کو ہر جائیز کام کرنا ہوگا۔ان کو خود بھی معلوم ہے کہ یہاںکے لوگ کن مسایل و مشکلات میں مبتلا ہیں ۔ان کے کام کس طرح کئے جاسکتے ہیں ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی ایسا مسلہ پیش کرے جو عدل و انصاف کے منافی ہو ۔کام وہی کیا جانا چاہئے جو جائیز ہو اور جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی نہ ہوتی ہو ۔ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ۔اگر ہم شہر میں سڑکوں کی حالت دیکھیں گے تو یہ دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ ان کی حالت کافی خستہ ہوچکی ہے ۔اگرچہ شاہراہیں قدرے ٹھیک ٹھاک ہیں لیکن جو رابط سڑکیں ہیں ان کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ ایسا لگتاہے کہ کسی دور دراز گاﺅں کی سڑکیں ہوں ۔تعمیر و ترقی کے لحاظ سے سب سے پہلی نظر نورجہاں پل قمر واری کی طرف جاتی ہے ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے یہ پل زیر تعمیر ہے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے یہ پل زیر ناتعمیر ہے کیونکہ اس پر سال میں دو ایک دنوں تک کام جاری رکھ کر بعد میں پانچ پانچ چھ چھ برسوں تک کام روک دیا جاتا ہے ۔تعجب کا مقام یہ ہے کہ منتخب حکومتوں کے علاوہ ایل جی کے دور اقتدار میں ہر چھوٹے بڑے وزیر اور ہر چھوٹے بڑے افسر ،انجنیر نے اس کے لئے ڈیڈ لائینیں مقرر کردیں اور لوگوں کو بار بار اس بات کا یقین دلایا گیا کہ مقررہ ڈیڈ لائینوں کے اندر اندر پل کی تعمیر اختتام کو پہنچے گی ۔چالیس سال کا طویل عرصہ گذر گیا ۔اس دوران جہلم میں کافی بہہ گیا لیکن نورجہاں پل کی تعمیر تشنہ تکمیل رہی ۔اگر حکام کو اس بات کا ذرا سابھی اندازہ ہوتا کہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے حوالے سے یہ پل کس قدر اہم ہے اس کے علاوہ پورے گاندربل اور بانڈی پورہ کے علاوہ معروف سیاحتی مرکز سونہ مرگ کے ساتھ ساتھ کرگل اور لہہہ آنے جانے کے لئے اس پل کی کتنی اہمیت بنتی ہے اور اگر یہ پل بن کر تیار ہوجاتا تو سب سے پہلے بیماروں کو کس قدر راحت ملتی کیونکہ ان کو فوری طور علاج معالجے کی سہولیات میسر آتیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کی تعمیر کو آگے بڑھانے کی طرف کسی بھی حکومت نے آج تک کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔اب نیشنل کانفرنس سے لوگوں کو توقع ہے کہ وہ اس پل کی تعمیر کو اختتام تک لے جاکر عوام کے دیرینہ مسلئے کو حل کرنے کی جانب اقدام کرے ۔اسی طرح بہت سے دیگر ایسے مسایل بھی ہیں جن کو حل کرکے عوام کو راحت پہنچائی جاسکتی ہے جن میں شہر میں ان تنگ راستوں کو کشادہ کرنا شامل ہے جن کی وجہ سے روزانہ گھنٹوں ٹریفک جام ہوتاہے ۔