مرکزی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر گیس سلنڈر کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عام صارف کی پریشانیاں اور بھی بڑھادیں ۔اگر گیس سلنڈر کی قیمت گیس تک ہی محدود رہتی تو لوگ اسے جیسے تیسے برداشت کرلیتے لیکن اس سے قیمتوں کا پورا ڈھانچہ متاثر ہوتاہے ۔ہر چیز کی قیمت بڑھادی جاتی ہے اور عام لوگوں پر اب قیمتوں کے حوالے سے اس حد تک بوجھ بڑھ گیا ہے جس کو برداشت کرنا اب ناممکن سا بن رہا ہے ۔کل ہی مرکزی حکومت کی طرف سے کمر شیل گیس سلنڈر کی قیمت میں فی سلنڈر 265روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔اس سے ملک کے چار میٹرو پالیٹن شہروں میں گیس سلینڈروں کی قیمت اس طرح ہوئی ہے ۔دہلی میں جہاں پہلے کمرشیل گیس سلنڈر کی قیمت1733تھی اب اس کی قیمت 2000کے آس پاس ہوئی ہے اسی طرح ممبی میں کمرشیل گیس سلنڈر کی قیمت جو پہلے 1683تھی اب بڑھ کر 1950کے آس پاس ہوگئی ہے ۔کولکتہ میں اب گیس سلنڈر کی قیمت 2073.50جبکہ چنئی میں اس کی قیمت بڑھ کر 2133روپے ہوگئی ہے ۔بھارت میں ایل پی جی سلنڈروں کی قیمتوں کا تعین کرنے والے دو اہم عوامل خام تیل کی عالمی قیمتیں اور ڈالر-روپے کی شرح تبادلہ ہے کیونکہ خام تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں متعین ہوتی ہے ۔برینٹ کروڈ کی قیمتیں اب 84ڈالرز فی بیرل کے قریب رہی ہیں جبکہ گذشتہ دنوں روپے کا شرح تبادلہ 74.88رہا جس سے ایل پی جی پر دباﺅ پڑا ۔یہ سب کچھ سرکاری طور پر کہا جارہا ہے اور اس کی رو سے سرکار گیس سلینڈر میں قیمتوں میں حالیہ اضافے کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔موجودہ قوانین کے مطابق صارف گھریلو سبسڈی والے نرخوں پر 14.2کلو گرام کے صرف بارہ سلینڈر حاصل کرنے کے اہل ہیں اس سے زیادہ کسی بھی مقدار کو بازار کی قیمت یا غیر سبسڈی والے نرخوں پر خریدنا ہوگا ۔حکومت بھلے ہی گیس سلنڈروں کی قیمتوں کو جائیز قرار دینے کی کوشش کرے لیکن محدود آمدن والے طبقے کے لئے اب مہنگائی ناقابل برداشت بنتی جارہی ہے کیونکہ جب سے پیٹرولیم مصنوعات گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا ہر چیز کی قیمتوں کا ڈھانچہ تبدیل ہوکر رہ گیا حتیٰ کہ ان چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں جن کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا ۔دوسری جانب حکومت بھی اس معاملے میں کوئی ایسا ٹھوس قدم نہیں اٹھاتی ہے جس سے لوگوں کو قیمتوں کے حوالے سے کسی قسم کی راحت ملتی ۔کہیں پر بھی بازاروں میں چکنگ سکارڈ نظر نہیں آتے ہیں ۔کسی بھی دکاندار یا کسی دوسرے تاجر کے خلاف ایسی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے جو ناجائیز منافع خوری کا مرتکب ہوتا ہے ۔تاجر لوگ اب سرکاری احکامات کی پروا کئے بغیر از خود قیمتیں مقرر کرتے ہیں ہر دوسرے تیسرے روز قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا یا روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ۔ہم کہا ں جارہے ہیں کسی کو معلوم نہیں ۔کوئی داد رسی نہیں ہورہی ہے ۔ساگ سبزیوں سے لے کر دوسری روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں پر حکومت قابو پانے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے ۔اسلئے اس بارے میں کچھ کہنا بے کار سی کوشش لگتی ہے ۔