وادی کے کسانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس سال وقت پر بارشوں کے باعث بہتر فصل ہوگی ۔جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں وغیرہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ موسم سرما میں بھر پور برفباری نہیں ہوئی لیکن اچھی خاصی اور وقت پر بارشوں کی بنا پر فصلیں اور خاص طور پر سرسوں کی فصل کافی حوصلہ افزا ہوسکتی ہے ۔اس وقت کھیت کھلیان سرسوں کے زرد شگوفوں کی بنا پر خوش کن دکھائی دے رہے ہیں اور جو سیاح وادی کی سیاحت پر آرہے ہیں اب مغل باغات وغیرہ سے زیادہ وہ اپنا وقت ان ہی کھیتوں میں گذارنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو کھیت اس وقت سرسوں کی بھر پور فصل سے لہلہارہے ہیں ۔سرسوں کی بہتر فصل کو لے کر کسانوں کے چہرے کھل اٹھے ہیں اور ان کو امید ہے کہ آیندہ بھی اسی طرح موسم ساز گار رہے گا اور وہ بہتر غذائی اجناس کی کاشت کرنے کے قابل ہوجائینگے ۔جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندار نے بتایا کہ محکمہ زراعت کی طرف سے فراہم کردہ سرسوں کے بیج ہمارے روایتی بیجوں سے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں اس سال اچھی خاصی آمدن کی امید ہے دیگر اضلاع کے کسانوں نے بھی اپنے بیان میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ان کو اس بات کی امید ہے کہ محکمہ زراعت کی طرف سے ان کو جو بیج فراہم کئے گئے ان سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ جب فصلیں بھر پورہونگی تو ظاہرہے کہ کسانوں کی آمدن بڑھے گی ۔دریں اثنا محکمہ زراعت نے بتایا کہ سال دوسال قبل تک لوگ اپنی زمینوں پر سرسوں کی فصل نہیں اگاتے تھے کیونکہ اب یہ رحجان آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے اب محکمہ زراعت اس حوالے سے نہ صرف متحرک ہوگیا ہے بلکہ مرکز کی طرف سے حال ہی میں کسانوں کو جو بیج فراہم کئے گئے وہ توقع سے بڑھ ثابت ہوئے یعنی ان بیجوں کی بدولت فصلوں پر بہار آگئی ہے ۔محکمہ زراعت کے ایک تجربہ کار نے بتایا کہ جیسے ہی حکومت ہند نے تیل حاصل کرنے کیلئے بیج مشن شروع کیا اس کے اچھے نتایج برآمد ہوءئے ہیں۔جموں کشمیر کو اٹھارہ سوینٹل بیج فراہم کئے گئے۔سرسوں کے کھیتوں کا رقبہ جو پہلے پہل بہت کم تھا لیکن اب سرسون کے بیجوں کی بدولت کسان اب زیادہ سے زیادہ زمین پراپنی کاشت کررہے ہیں۔اس وقت ایک لاکھ چالیس ہزار ہیکٹیر رقبے پر سرسوں کی فصلیں اگائی جارہی ہیں ۔جس نے پوری وادی کو پیلے رنگ میں رنگ دیا ہے ۔وادی کی سیر کرنے والے سیاح جیسے پہلے ہی کہا گیا قاضی گنڈ سے سرینگر تک جموں سرینگر شاہراہ پر سرسوں کے پھولوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔کسان اس بات پر خوش ہیں کہ مرکز نے بیجوں کا جو مشن شروع کیا ہے محکمہ زراعت نے اسے وقت پر کسانوں میں تقسیم کرکے ان کے روز گار کو بڑھانے کے وسایل پیدا کئے اسلئے دوسری فصلوں کی بیجوں کو بھی کسانوں میں تقسیم کرنے سے فصلیں بہتر ثابت ہوسکتی ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ زرعی زمین پر جو تعمیرات کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے اس سے ہم اپنے ہی پاﺅں پر کلہاڑی مار ہے ہیں کیونکہ اگر زرعی اراضی کو صرف زراعت سے وابستہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جاتا تو یقینا وادی کشمیر زرعی سیکٹر میں خود کفیل ہوتی اور ہمیں وادی سے باہرکی ریاستوں سے غذائی اجناس سے وابستہ اشیادرآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔