ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے عالمی اقتصادی فورم کے ایک حالیہ سروے کے حوالے سے جو اطلاعات فراہم کیں ان میں موسم کے حوالے سے ایسے چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے کہ اس سے پریشانیاں بڑھنے لگی ہیں ۔فورم کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پوری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور ایسے اثرات پڑینگے کہ 2040تک مبینہ طور پر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ اس کی بھینٹ چڑھ جاینگے یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگ موسم کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاینگے یعنی موت کے منہ میں چلے جاینگے اس کے عالوہ سیلاب ،خشک سالی ،گرمی کی لہر ،طوفانی بادو باراں ،جنگلوں میں آتشزدگیاں اور سمندر کی سطح میں اضافے کے علاوہ زلزلوں کا بھی خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔اس سروے رپورٹ میں تمہید ہی اتنی بھیانک ہے کہ آگے اس کا مطالعہ کرنے سے ڈر محسوس ہونے لگتاہے ۔لیکن کیا کریں اپنے ہی ہاتھوں یہ سب کچھ کیا دھرا ہے جس کا خمیازہ اس وقت ہم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔اس سروے رپورٹ میں فورم کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی ہوسکتا ہے یعنی 12.5ٹریلین ڈالر کے معاشی نقصان کا خطرہ ہے ۔سوئیزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں شایع ہونے والی ورلڈ اکنامک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پورے کرہ ارض میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں کہیں اوسط درجہ حرارت میں اضافہ اور کمی درج ہورہی ہے ۔رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے چھ بڑے نتایج کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں سیلاب ،خشک سالی ،ناقابل بیان گرمی ،طوفانی بادو باراں ،جنگلوں میں آگ اور سمندر کی سطح میں ہوسکتاہے ۔مطالعہ میں کہا گیا کہ صرف طوفان و سیلاب سے سال 2040تک8.5ملین تک کی اموات کا اندازہ لگایا جارہا ہے ۔جو کہ آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا سب سے زیادہ شدید خطرہ ہے ۔خشک سالی ،آب و ہوا سے متعلق اموات کی دوسری بڑی وجہ کے طور پر 32ملین جانیں تلف ہوسکتی ہیں ۔ناقابل برداشت گرمی سے سب سے زیادہ معاشی نقصان ہوسکتا ہے جس کا تخمینہ 7.1ٹریلین ڈالر لگایا جارہا ہے ۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی بحران عالمی سطح پر صحت کے مسایل زیادہ تیزی سے پیدا کرسکتاہے ۔اور سب سے زیادہ کمزور آبادی اس کا شکار ہوسکتی ہے ۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ا س سے زیادہ سے زیادہ افریقی ممالک متاثر ہونگے کیونکہ بیشتر افریقی ممالک اقتصادی بحران کا شکار ہیں اور ان کی آبادیاں بھی مختلف مسایل و مشکلات سے دوچارہیں ۔ یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ افریقہ اور جنوبی ایشیا ءئی جیسے خطے اپنے محدود سایل جیسے بنیادی ڈھانچے اور ضروری طبی آلات کی وجہ سے خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ہوسکتے ہیں۔رپورٹ میں عالمی سٹیک ہولڈرز سے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے صحت پر ہونے والے منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے فیصلہ کن اور فیصلہ کن سٹریٹجیک اقدام کا مطالبہ کیا گیا۔اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موسم کے حوالے سے آنے والا وقت انتہائی سخت اور مشکل ترین ہوگا جو انسانی زندگیوں کو گاجر مولی کی طرح کچل کر رکھ دے گا۔