چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتہ نے گذشتہ دنوں این آئی ٹی میں منعقدہ ایک تقریب پر تقریر کرتے ہوے کہا کہ ماحولیات کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے انقلابی نوعیت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے جموں کشمیر میں انتظامیہ انتہائی سنجیدہ ہے اور ہر وہ قدم اٹھاتی ہے جو ماحولیات کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے کار آمد قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ تقریباً دو ہزار سے زیادہ امرت سرووروں اور 200ای بسوں کی منظوری دی گئی ہے اور گذشتہ برس شجر کاری مہم کے تحت تقریباً ڈیڑھ کروڑ پودے لگائے گئے جس کے خاطر خواہ نتایج برآمد ہونے کے سو فی صد چانسز ہیں ۔اس کے علاوہ انتظامیہ نے پلاسٹک کے سنگل یوز کا استعمال کم کرنے کے ضمن میں کاروائی شروع کی ہے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ عنقریب ہی دنیا کی آبادی عنقریب 9ارب تک پہنچ جاے گی اور اس طرح زمین اتنے سارے لوگوں کی ضروریات نہ تو پوری کرسکتا ہے ۔نتیجے کے طور پر جب تک نہ ہم ماحولیات کو تحفظ دینے کے بارے میں سنجیدہ رخ اختیار نہیں کریں گے تب تک اس کرہ ارض پر زندگی روز بروز مشکل تر ہوجاے گی۔واقعی زندگی ایک بہترین اور قیمتی شے ہے جسے ماحولیات کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیا جانا چاہئے اسلئے لوگوں کو از خود ایسے اقدامات اٹھانے چاہئے جو ماحول دوست ہوں ۔اس سے قبل ان ہی کالموں میں ماحولیات سے متعلق لکھا گیا ہے ہر معاملے میں سرکار کی طرف نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ماحولیات کے حوالے سے کیا کچھ کرتے ہیں ؟لیکن جب ہم خود پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے کیونکہ اس حوالے سے ہمارا طرز عمل نہ قابل تقلید ہے اور نہ ہی قابل سراہنا ۔اس وقت لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ تی پھر رہی ہیں۔ان سے نکلنے والا دھوان یعنی یہ گاڑیاں جو کاربن ڈایکسائیڈ چھوڑتی ہیں اس سے ہوا اس قدر کثافت سے بھر جاتی ہے کہ سانس لینا بھی دشوار بن جاتاہے ۔اب ایل جی انتظامیہ نے جموں اور سرینگر کے شہروں میں اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے ای آٹو رکھشا اور ای بس سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا اگرچہ آٹو رکھشا شہر کے بعض علاقوں میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ای بسوں کی تعداد بہت کم ہے ۔صرف شہر کے بالائی علاقوں میں دو چار ای بسوں کو دیکھا جاسکتاہے جو کئی روٹوں پر چلتی ہیں حکومت کا کہنا ہے کہ دو سو بسوں کو خریدا جارہا ہے لیکن ابھی تک ان بسوں کا وجود ہی نظر نہیں آرہا ہے صرف گذشتہ ہفتے عید میلاد لنبی کی تقریب سعید پر کئی بسوں کو درگاہ حضرتبل میں دیکھا گیا لیکن تب سے ان کو کوئی وجود نہیں ہے ۔اسلئے فوری طور پر ان گاڑیوں کو مختلف روٹوں پر چلانا ضروری ہے ۔اس کے ساتھ ہی جنگل چوروں کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کوفروغ دینا چاہئے تاکہ ماحول کو کثافت سے بچایا جاسکے ۔بنیادی طور پر اگر دیکھا جاے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جنگل سمگلنگ کی وجہ سے ہی ماحول میں کثافت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ درخت کار بن ڈایکسائیڈ خود میں جذب کرتے ہیں جبکہ وہ بعد میں آکسیجن چھوڑتے ہیں جو انسانی بقا کیلئے نہایت ہی ضروری ہے اسلئے جنگلوں کی حفاظت کرنے کے لئے عام لوگوں اور خاص طور پر جنگلوں کے قریب رہنے والوں کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ۔