وادی کشمیر میں بجلی کا بحران دہائیوں سے چلاآرہا ہے اس بحران پر قابو پانے کےلئے اگرچہ سرکار کی جانب سے اقدامات اُٹھانے کے دعوے کئے جارہے ہیں تاہم ہر برس ہم دیکھتے ہیں کہ زمینی سطح پر کوئی بھی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔ لوگوں کی سرکار کے ساتھ امیدیںوابستہ ہیں کہ سرکار لوگوں کو درپیش مسائل کے ازالہ کےلئے اقدام اُٹھائے گی لیکن جب سرکار ہی کسی مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر عوام کہاں جائیں گے اور کس در پر دستک دےں گے۔ آج سے تیس چالیس برس پہلے سرکار کی طرف سے لوگوں کو سردیوں سے نمٹنے کےلئے بالن ، کوئلے اور مٹی کا تیل فراہم کیا جاتا تھا اگرچہ اُس زمانے میں بجلی کا اتناتصرف نہیں تھا لیکن لوگوں کو بنیادی ضروریات کے حوالے سے سرکار سنجیدہ تھی اور ان ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وادی کشمیر میں بجلی کا تصرف بہت زیادہ ہے بنسبت دیگر ریاستوں کے کیوں کہ یہاں پر سردی سے بچنے کےلئے بھی بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے کہ بالن، کوئلہ اور مٹی کا تیل فراہم کرکے لوگوں کو راحت پہنچائی جا تی تھی۔ سرکار کو چاہئے کہ بجلی پر موجودہ دباﺅ کو کم کرنے کےلئے پھر سے بالن ، کوئلہ اور مٹی کا تیل فراہم کیا جائے تاکہ لوگ ضرورت کے حساب سے ان چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے بجلی بچانے کی کوشش کریں گے ۔ اگر لوگ بجلی کا استعمال ترک کردیں گے تو اس کے متبادل میں ان کو کوئی چیز ہونی چاہئے جس کے استعمال سے ان کی ضروریات پوری ہوں ۔ اس لئے سرکار کو اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہئے اور بجلی کو بچانے اور لوگوں کو راحت پہنچانے کےلئے بالن ، کوئلہ اور مٹی کا تیل فراہم کرنے کےلئے اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ اگر سرکار یہ کرنے میں کامیاب ہوگی تو سرکار کے پاس بجلی کٹوتی کا جواب بنتا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر بجلی کا صحیح استعمال بھی نہیں ہوسکتا ہے ۔