گذشتہ دنوں لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے یہاں جشن صحت نامی ایک خصوصی تقریب کا افتتاح کرتے ہوے بتایا کہ لوگوں کی صحت کے حق میں جان بوجھ کر درپیش چلینجوں اور صحت کی بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے مستقبل کے روڈ میپ کا تعین کرنے کے لئے اس تقریب کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ایل جی نے اس موقعے پر بتایا کہ کہ بغیر کسی امتیاز کے سب کے لئے صحت کا حق ہمارا عزم ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ طبی امداد کی ضرورت والے ہر شہری کے ساتھ عزت و وقار سے برتاﺅ کیا جاے ۔زیادہ خوشحال اور پیداواری معاشرہ ہمارا اولین مقصدہے انہوں نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ صحت عامہ مستحکم سماجی اور اقتتصادی ترقی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ایل جی نے کہا کہ ہمیں طبی امداد کی فراہمی میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کو مٹانا ہوگا اورکوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو بیمار ہو خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے یا فرقے سے ہی کیوں نہ ہو کو مناسب طبی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔ایل جی نے بار بار کہا کہ بغیر امتیاز کے سبھی لوگوں کے لئے صحت کا حق اور طبی خدمات کی فراہمی ہمارا عزم ہے ،اس تقریب پر تقریر کرتے ہوے ایل جی نے انکشاف کیا کہ یورپین ممالک اب یونیورسل ہیلتھ کوریج کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔جس کا مطالعہ کیا جارہا ہے کیا طریقہ کار ہے اور کس طرح ایک غریب سے غریب آدمی کو طبی سہولیات کی فراہمی میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آسکے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے یہاں سرکاری ہیلتھ انشورنس سکیم نہیں تھی لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے پیمانے پر ہیلتھ انشورنس سکیم متعارف کی جس سے لوگ فایدے حاصل کررہے ہیں گولڈن کارڈ کا تصور کچھ برس قبل نہیں کیا جاسکتاتھا اور اس وقت لاکھوں لوگوں کے پاس گولڈن کارڈ ہیں جبکہ آیوشمان کارڈ بھی لوگ حاصل کررہے ہیں روزانہ تقریباً دو کروڑ کا علاج گولڈن کارڈ پر ہوتا ہے ۔اب لوگوں نے کافی تعداد میں کارڈ حاصل کئے ہیں اور اس سے استفادہ کررہے ہیں ۔لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود لوگ اب بھی مناسب طبی سہولیات سے محروم ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ہسپتالوں کی انتظامیہ کا طریقہ کار ہے ۔اس سلسلے میں تقریباً روزانہ ایسی شکایتیں موصول ہورہی ہیں جن میں بتایا جارہا ہے کہ لوگوں کو ہر ہسپتال کے اوپی ڈی میں انتظامی بدنظمی کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں ۔لیکن اس کی جانب ہسپتال انتظامیہ توجہ نہیں دے رہی ہے ۔علاج معالجے کے لئے وہی دقیانوسی طریقہ کار رایج ہے ۔اس میں تبدیلی لانے سے ہوسکتا ہے کہ ہسپتالوں کا رخ کرنے والوں کو تھوڑی سی راحت مل سکے ۔اس کے علاوہ گولڈن کارڈز کو تسلیم کرنے کا مسلہ اب بھی درد سر بناہوا ہے بعض ہسپتالوں کی انتظامیہ اس کو تسلیم کرتی ہے اور بعض اس کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کرتی ہے ۔یہ معاملہ بھی ایک ہی بار طے ہونا چاہئے ۔اس کے علاوہ ہسپتالوں میں صرف معمولی ادویات ہی دستیاب ہوتی ہیں جبکہ دوسری ادویات مریضوں کو باہر سے ہی لانا پڑتی ہیں ۔یہ مسلئے ایک بار حل ہوجائیں تو لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت عام لوگوں کے لئے طبی امداد کی فراہمی میں کس قدر سنجیدہ ہے ۔