حال ہی میں ایک مقامی اخبار میں بریسٹ کینسر سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ شایع ہوئی ہے اس رپورٹ کو پڑھ کر تشویش میں مبتلا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ اس رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر سال وادی میں چار ہزار سے زیادہ کینسر معاملات سامنے آتے ہیںجو واقعی ہر کشمیری کے لئے باعث تشویش ہے ۔اس سلسلے میں اخبار یوں رقمطراز ہے کہ کینسر کی کئی وجوہات ہیں یعنی بچوں کو دودھ نہ پلانا ،بچوں کی پیدایش میں فاصلہ رکھنے کے لئے ادویات کا استعمال اور اس کے علاوہ تاخیر سے شادیاں بھی خواتین میں اس موذی بیماری کا باعث بن رہی ہیں اسلئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے کیسے دور رہا جاے تاکہ اس موذی بیماری سے چھٹکارا مل سکے ۔بعض ناداں خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے اس لئے کتراتی ہیں تاکہ ان کی فِگر کہیں خراب نہ ہوجاے اسی لئے وہ بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہو ان کو غالباً اس بات کی خبر نہیں کہ وہ ایسا کرکے کتنی بڑی بیماری کو دعوت دیتی ہیں ۔بریسٹ کینسر کے بارے میں اس اخبار میں اعداد و شمار کی بھی تفصیلات ظاہر کردی گئیں جو کافی خطرناک ہیں ۔اس سلسلے میں جو اعداد و شمار ظاہر کئے گئے ان میں بتایا گیا کہ 66فی صد خواتین میں ابتدائی مرحلے پر 28فی صد میں درمیانی جبکہ 6فی صد خواتین میں چھاتی کا سرطان آخری مرحلے میں ہوتا ہے ۔اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین میں یہ موذی مرض کس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے جس پر روک لگانے کی ضرورت ہے لیکن مطالعے سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ جب بھی قدرتی نظام کے خلاف آدمی بظاہر اپنی چالاکی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔یعنی بچے کو دودھ نہ پلانا ،بچوں کی پیدایش میں فاصلے رکھنے کے لئے مختلف ادویات کا استعمال اور تاخیر سے شادیاں وغیرہ خواتین میں کینسر کا موجب بنتی ہیں ۔تاخیر سے شادیاں تو ایک سنگین سماجی مسلہ بھی ہے جو سماج کا پیدا کردہ ہے ورنہ کوئی بھی ایسے والدین نہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادیوں میں جان بوجھ کر تاخیر کریں گے ۔ہمارے سماج نے لڑکیوں کی شادیوں کو اس قدر پیچیدہ بنایا ہے کہ شادیوں میں تاخیر ہوجاتی ہے کیونکہ بیشتر گھرانے ایسی بہو کو گھر لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں جو ملازمت نہ کرتی ہو ۔یہ بھی شادیوں میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ بن جاتی ہے ۔اس کے لئے سماج کے معززین کو کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہئے تاکہ اس قبیح عمل پر روک لگائی جاسکے ۔سروے رپورٹ کے مطابق دو بچوں کے درمیان طویل وقفہ رکھنے کے لئے بھی بعض خواتین ایسی ادویات استعمال کرتی ہیں جس کے انتہائی سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے بھی موذی مرض پھیلتا ہے ۔اسلئے خواتین کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہئے ۔ اگر خواتین میں چھاتی کا سرطان اس تیزی سے پھیلتا ہے تو محکمہ ہیلتھ اور میڈیکل ایجوکیشن کوباظابطہ ایک مہم شروع کرنی چاہئے اور خواتین کو بتانا چاہئے کہ چھاتی کے کینسر سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ۔