گذشتہ دنوں ان ہی کالموں میں وادی میں خود کشی کے بڑھتے ہوے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوے لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس بات پر غو ر کریں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ہمارے سماج پر ایسی کون سی آفت آگئی ہے کہ ہمارے نوجوان اور ہماری خواتین اب معمولی معمولی باتوں پر اس قدر انتہائی قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتی ہیں ۔کشمیری اپنی نرم مزاجی ،متانت ،فہم و فراست ،دور اندیشی ،خوش مزاجی اور رحم دلی کے لئے پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے ۔کسی کا دل دکھانا یا کسی کو بلاوجہ تکلیف پہنچانا کشمیری نے کبھی سیکھا ہی نہیں ہے لیکن اب کشمیری سماج میں ایسے منفی رحجانات اثر انداز ہونے لگے ہیں کہ اب ہمارے یہاں وہ بھی ہونے لگا جس کا دس بیس بر س قبل تصور تک نہیں کیا جاسکتاتھا۔کشمیر کا سماجی پیٹرن کچھ الگ قسم کا ہوتا ہے ۔لیکن اب اس میں ایسے عناصر گھسنے لگے ہیں کہ پورا طرز نظام بدل کر رہ گیا ہے ۔کل ہی کی بات ہے پہلگام کے قریب نالہ لد ر سے ایک خاتون کی لاش برآمد کی گئی جبکہ اسی دوران یہ اطلاع بھی ملی کہ ایک اور خاتوں نے بارہمولہ میں دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ہے ۔آخری اطلاعات ملنے تک اس کی لاش جہلم سے نہیں نکالی جاسکی تھی ۔اس سے قبل سوپور میں ایک اعلی تعلیم یافتہ طالب علم کی لاش اس کے گھر کے ایک کمرے میں دیکھی گئی جو لٹک رہی تھی۔بیٹے کی جدائی جہاں والدین کے لئے انتہائی درد ناک ہوتی ہیں وہیں جس طرح اس نوجوان کی موت واقع ہوئی ہے وہ اس کے والدین کے لئے عمر بھر کے لئے انتہائی کربناک ثابت ہوسکتی ہے ۔اس کے بعد ہی اس نوجوان لڑکی کی موت بھی اس کے والدین کے لئے عمر بھر کا روگ ثابت ہوسکتی ہے ۔ایسا کیوں ہورہاہے ؟یہ واقعات کشمیری علمائے کرام ،پروفیسروں ، سکالروں ،ایمہ مساجد،خطیبوں دانشوروں ،قلم کاروں وغیرہ کے علاوہ سماجی رہنماوں اور کشمیری سیاسی لیڈروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے سب کو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور کون سا ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاناچاہئے جس سے اس طرح کے واقعات کی موثر روک تھام کی جاسکے ۔اس معاملے میں خاص طور پر والدین بھی بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے انہیں اپنے بالغ بچوں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی کی حرکات وسکنات پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے اور اگر انہیںان کی حرکتیں مشکوک نظر آئینگی تو اپنے بچوں کے ساتھ دوستوں کی طرح سلوک کرکے انہیں سمجھانا چاہئے ۔ان میں زندہ رہنے کی تڑپ پیدا کرنی چاہئے انہیں خودکشی جیسے حرام عمل سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہئے والدین اپنے بچوں کے لئے سب سے قریبی اور بہترین دوست ہیں ۔اس وقت ایسے بھی والدین نظر آتے ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے بچوں کی باتوں کا بُرا نہیں مانتے ہیں بلکہ ہر معاملے میں بچوں سے ہی صلاح لیتے ہیں اس طرح بچوں کو بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے والدین ان سے بے پناہ پیار کرتے ہیں ۔اپنے بالغ بچوں کے جذبات کو والدین کو سمجھنا چاہئے اور اگر وہ کچھ غلط کررہے ہیں یا ان کو کچھ غلط کرنے کا ارادہ ہے تو والدین کو آگے بڑھ کرانہیں سمجھانا چاہئے ۔اس کے علاوہ سماج کی ذی عزت شخصیتوں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے کو بھی کشمیری سماج میں اس قسم کے رحجانات کی روک تھام کیلئے آگے آنا چاہئے ۔