خود مختار علاقے سنکیانگ کے اندر کی صورت حال کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت
جینوا: یکم ستمبر (ایجنسیز) اقوام متحدہ نے چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تشدد کے الزامات مصدقہ ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے بدھ کو ایک انتہائی چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس میں سنکیانگ صوبے میں انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں اویغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں تاہم اس (رپورٹ) میں نسل کشی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ امریکہ اور دیگر ناقدین چین پر اویغوروں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دنیا کو اب سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر فوری توجہ دینی چاہیے۔‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے فیصلہ کیا ہے چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ کے اندر کی صورت حال کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ تقریباً ایک سال سے تیار ہو رہی تھی اور چین نے اس کی ریلیز کی شدید مخالفت کی تھی۔ مشیل بیچلٹ نے اسے اگست کے آخر میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے طور پر اپنی چار سالہ میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی جاری کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ مشیل بیچلیٹ نے جمعرات کو اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا ’میں نے کہا تھا کہ میں اسے اپنا مینڈیٹ ختم ہونے سے پہلے شائع کر دوں گی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ ریاستوں کی طرف سے انسانی حقوق کے ان سنگین مسائل کو سیاسی بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘ چین پر برسوں سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اس نے خطے میں 10 لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر مسلمانوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ بیجنگ نے ان دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ انتہا پسندی روکنے کے لیے بنائے گئے پیشہ ورانہ مراکز چلا رہا ہے۔