مرکزی حکومت نے جموں کشمیر میں ایسے گیارہ اراضی قوانین کو نافذ کیا جو پہلے یہاں نہیں تھے البتہ جن نئے قوانین کو نافذ کیا گیا انہوں نے پرانے قوانین کی جگہ لی ہے جو سابق حکومتوں کے دور میں نافذالعمل تھے ۔سابق قوانین کے بارے میں سرکاری طور جو بتایا گیا ان کے مطابق وہ رجعت پسند ،اندرونی طور متضاد اور فرسودہ تھے ۔جبکہ بقول سرکار نئے قوانین ترقی پسند اور عوام دوست ہیں جن سے لوگوں کو بہت زیادہ فایدہ حاصل ہوسکتا ہے ۔نئے اراضی قوانین جموں کشمیر میں 90فی صد اراضی کو بیرونی لوگوں سے تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دینگے ۔اس بات کی یقین دہانی حکومت کی طرف سے دی گئی ہے ۔سال 2019اگست کے بعد مرکزی حکومت نے سابق ریاست جموں کشمیر کے بہت سے قوانین کو یا تو کالعدم کیا یا ان میں ترمیم کی گئی ا س کے بارے میں حکومت کی طرف سے بار بار اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی کہ جو نئے مرکزی قوانین یہاں نافذ کئے جارہے ہیں وہ جموں کشمیر کے عوام ،یہاں کے جغرافیائی حالات ،تہذیب و تمدن ،ضروریات اور دیگر چیزوں کو مد نظر رکھ کر عاید کئے جارہے ہیں اور کوئی بھی قانون اندھا دھند طریقے پر نافذ نہیں کیا جارہاہے البتہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک وہ نئے اراضی قوانین کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں ۔نئے اراضی قوانین کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ اس سے صنعتوں کو نہ صرف فروغ مل سکتا ہے بلکہ اس سے نوکریوں کے احکامات بھی صادر کئے جاسکتے ہیں ۔سرکاری طور پر نئے اراضی قوانین کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ان میں بتایا گیا کہ نئے اراضی قوانین نہ صرف جموں کشمیر میں نوے فی صدی سے زیادہ اراضی کو بیرونی لوگوں سے بیگانہ ہونے سے تحفظ فراہم کرینگے بلکہ یہ زراعت کے شعبے کو بہتر بنانے ،تیز رفتار صنعت کاری کو فروغ دینے اور جموں کشمیر میں ملازمتوںکے مواقعے فراہم کرنے میں مدد کرینگے ۔وزرات داخلہ نے 26اکتوبر کو ایک حکم نامے کے ذریعے سابق ریاست جموں کشمیر کے چودہ قوانین میں ترمیم کی اور بارہ دیگر کو منسوخ کردیا ۔چار بڑے ریا ستی قوانین میں کلیدی ترامیم کی گئیں تھیں جو سابق ریاست جموں کشمیر میں زمین کی ملکیت فروخت اور خرید کو کنٹرول کرتی تھیں ۔یہ جے اینڈ کے ڈیولپمنٹ ایکٹ 1970,جے اینڈ کے لینڈ ریونیو ایکٹ ،1996زرعی اصلاحات ایکٹ 1976اور جے اینڈ کے لینڈ گرانٹس ایکٹ 1960ہیں سرکاری طور پر بتایا گیا کہ صنعتی مقاصد کے لئے اراضی کاتعین ان نوجوانوں کے لئے روزگار کے زیادہ مواقع کھولے گاجوہمیشہ جموں کشمیر میں صنعتی انقلاب کی خواہش رکھتے ہیں ۔تاکہ ان کو روزگار کے بہترین مواقع مل سکیں ۔اس میں سب سے اہم نکتہ جو سرکاری طور پر نئے قوانین کے بارے میں کہا گیا ہے وہ یہ کہ ”نئے اراضی قوانین کے مطابق زرعی زمین صرف ایک کسان کو فروخت کی جاسکتی ہے اور اسے ایسے شخص کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو یوٹی میں ذاتی طور پر زمین کاشت کرتا ہے ۔زرعی زمین کی اصطلاع کو واضع طور پر نہ صرف زراعت بلکہ باغبانی اور اس سے منسلک زرعی سرگرمیون کو بھی شامل کرنے کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات کی پوری طرح وضاحت کی تھی کہ جموں کشمیر کی ایک انچ زرعی اراضی باہر کے کسی بھی شخص کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا تھا کہ جموں کشمیر میں زرعی زمین باہر کے کسی بھی شخص کو نہیں دی جاسکتی ۔لوگ اسی طرح کی ضمانت چاہتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے متعدد حلقوں میں مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں ۔منوج سنہا نے کہا کہ ابھی تک ایک انچ زرعی زمین باہر کے کسی بھی شخص کونہیں دی گئی ہے ۔