کشمیر کی وراثت کی ہم آہنگی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے اسلئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی وراثت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنا رول ادا کریں ۔یہ بات ڈائریکٹر آکیالوجی اینڈ میوزیم مسٹر سدھا نے ہیر ٹیج ویک کے سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب پر بتائی ۔انہوں نے جو کچھ کہا وہ اپنے اندر دونوں گہرائی اور گیرائی رکھتی ہے کیونکہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی وراثت کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جن سے آنے والی نسلوں کو پتہ چلتاہے کہ وہ کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے وارث وہ ہیں ۔ادھر ورلڈ کرافٹ کونسل کی ساٹھویں جوبلی کی تقریب سرینگر میں جاری ہے اور اس تقریب کا مقصد ہماری دستکاری وراثت کو تحفظ فراہم کرنا ہے یعنی ہم ان دستکاریوں کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کریں جو ہمارے آباو اجداد کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اور جن کی وجہ سے پوری دنیا میں کشمیر کی پہچان ہے ۔بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وارثت کو تحفظ دینے کا مطلب نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے سے کترانا ہے ۔لیکن یہ بالکل غلط اور بے بنیاد سوچ ہے ۔ہر قوم کا اپنا اپنا الگ انداز اورتہذیب و تمدن ہوتا ہے ۔قوموں کی پہچان اس قوم کے رکھ رکھاﺅ یعنی لباس ،طور طریقوں ،شادی بیاہ کی تقریبات کے طریقے ،کھانے پینے کا ڈھنگ ،دستکاری مصنوعات یعنی کاریگری ہوتی ہے ہر قوم کا الگ الگ طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ بھی ہر معاملے میں اور کشمیری قوم کی بھی ایک الگ پہچان ہے جو اسے دوسری قوموں سے منفرد مقام عطا کرتی ہے یہ جو پہچان ہے وہ کیا ہے اسی کو وراثت کہتے ہیں ۔مثلاً سماوار ،کانگڑی ،وگوئ،کاشر دان،مٹی اور تانبے کے برتن اور ان کی بناوٹ ،شادی بیاہ کی تقریبات کے طور طریقے ،پھرن ،ٹوپی کے علاوہ ہماری دستکاری مصنوعات،زبان و ادب غرض ان سے قوم کشمیر کی پہچان ہے اگر ان چیزوں کو ہم بھول جائینگے اور کسی دوسری قوم کے طور طریقے اپنائینگے تو ہمارا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔وراثت کو تحفظ دینے کا مطلب یہی ہے کہ جن چیزوں سے کشمیری قوم کی پہچان ہے ان کو ہمیں آگے لے جانا ہے نہ کر ان کو بھول کر دوسری قوموں کے ورثے کو اپنانا ہے اسلئے اس معاملے میں ہر کشمیری چاہئے وہ مرد ہو یا عورت لڑکا ہو یا لڑکی اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا تب کہیں جاکر اس قوم کا مستقبل تابناک بن سکتاہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیریوں نے سب سے پہلے اپنی زبان کو کھودیا ہے ۔اگرچہ سکولوں اور کالج سطح پر کشمیری پڑھائی جاتی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ صرف پانچ دس فیصدلوگ ہی کشمیری لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔آج نوے فی صد بچوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کشمیری زبان کیا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ ہمارے وہ والدین ہیں جو بچوں کو اردو سکھاتے پڑھاتے اور اردو میں ہی ان کے ساتھ بول چال کی جاتی ہے ۔ہمارے کھانے پینے اور لباس کے ڈھنگ بھی بدل گئے ہیں ۔جس چیز سے باہر کی دنیا میں کشمیراور کشمیری کی پہچان ہے ان چیزوں کو ہم نے کب کا ترک کردیا ہے ۔ہم اپنی دستکاریوں کو چھوڑ رہے ہیں ۔زبان و ادب سے دوری بنائے ہوئے ہیں اور ثقافتی ورثے کا تو کشمیریوں نے جنازہ ہی نکالا ہے ۔مغربی موسیقی ،مغربی ساز وغیرہ اور اس میں کشمیری کو ملانا یعنی مکس کرکے اسے پیش کرنا اور وہ بھی کشمیری نغموں کے نام پر ہماری تہذیب کے ساتھ سب سے بھونڈا مذاق ہے ۔