سرکاری طور پر ایک آرڈر نکالا گیا جس میں کہا گیا کہ حکومت نے پیٹ سکین کی خدمات کی فراہمی کے لئے فیس مقرر کی ہے ۔بیان مین کہا گیا کہ جموں کشمیر کی حکومت نے یہاں جدید طبی نگہداشت کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کی سمت اسے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے ۔جن لوگوں نے یہ سنا یا جنہوں نے اس خبر کو پڑھا ان کو سرکار کا یہ آرڈر اطمینان بخش محسوس ہوا کیونکہ جب حکومت فیس مقرر کرتی ہے تو کوئی اس سے زیادہ وصول کرنے کی جرات نہیں کرسکتاہے لیکن جس دن یہ خبر اخبارات کی زینت بن گئی اسی دن یہاں کے ایک معروف معاصر روزنامے نے اس پر ایک مدلل رپورٹ شایع کی اور اس اخبار نے سرکار کے اس آرڈر کو غریبوں کے ساتھ مذاق قرار دیا اور کہا کہ سرکار کی طرف سے یعنی میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جو آرڈر شایع ہوا ہے اس میں کہا گیا کہ پیٹ سکین کے لئے جو فیس مقرر کی گئی ہے اس سے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کو مثتثنیٰ رکھا گیا یعنی میڈیکل ڈیپارٹمنٹ نے جو آرڈر نکالا وہ دوسرے ہسپتالوں یا طبی اداروں پر لاگو ہوگا صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ پر نہیں اور تعجب یہ ہے یہ مشین صرف صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں ہی نصب ہے جبکہ کسی بھی دوسرے ہسپتال یا پرائیویٹ طبی ادارے میں یہ مشین نصب نہیں کیونکہ اس کی قیمت تقریباً23کروڑ ہے ۔اخبار ی رپورٹ میں کہا گیا کہ صورہ انسٹی چیوٹ میں یہ مشین سال 2018کو 8جنوری کے دن نصب کی گئی ہے جبکہ حال ہی میں جموں میڈیکل کالج ہسپتال میں یہ مشین نصب کی گئی ہے اس کے علاوہ پورے جمون کشمیر میں پیٹ سکین کی سہولیات دستیاب نہیں ۔اب اگر کسی کینسر مریض کو پیٹ سکین کروانے کی صلاح ڈاکٹر دیتا ہے تو لازمی طور پر اسے صورہ کا رخ کرنا پڑے گا کیونکہ وادی میں کسی دوسری جگہ یہ سہولیات دستیاب نہیں اسلئے یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس طرح کا آرڈر نکالنے کی سرکار کو کیا ضرورت پیش آئی ۔اخبار نے ان شخصیات کے بھی نام ظاہر کئے جنہوں نے پیٹ سکین نصب کرنے کے لئے چندہ دیا ہے اور تعجب کا مقام ہے کہ کشمیر کی صرف ایک شخصیت ڈاکٹر کرن سنگھ کا نام شامل ہے جبکہ باقی سب کے سب بیرون جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہاں کے صاحب ثروت اصحاب اس نیک کام میں اپنا رول ادا کرتے اور مل جل کر ایک ایسا ادارہ قایم کرتے جہاں لوگوں کو انتہائی کم فیس پر پیٹ سکین کی سہولیات فراہم کی جاسکتیں ۔یہاںکے اقتصادی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ لوگ معمولی USGکروانے کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک مہینے تک اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں جبکہ یہاں ہر گلی محلے میں بھی ایسے تشخیصی مراکز قایم کئے گئے ہیں جہاں یو ایس جی کی سہولیات وہ بھی معمولی چارجز پر دستیاب ہیں لیکن پھر بھی وہ سرکاری ہسپتالوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔اب ایسے ہی غریب اور بے کس شہریوں میں سے اگر کسی کو پیٹ سکین کی صلاح ڈاکٹر دیتاہے تو وہ کس طرح ہزاروں روپے صرف کرکے صورہ ہسپتال کا رخ کرسکتاہے اسلئے اگر یہاں کے صاحب ثروت افراد کچھ رقم اس ادارے کو فراہم کرینگے جو پیٹ سکین نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے ایسا نہ کر پاتا ہو تو ان کی مدد کی جاسکتی ہے یا اگر حکومت کسی ہسپتال میں ایک اور پیٹ سکین مشین نصب کرنے کا ارادہ رکھتی ہو لیکن فنڈز کی عدم دستیابی اس نیک کام میں رکاوٹ بن جاتی ہو تو اس کے ساتھ بھی یہاں کے لوگ تعاون کرسکتے ہیں اس سے بڑھ کر ثواب کا کام کیا ہوسکتاہے ۔