وزیر تعلیم سکینہ یتو کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ سال 2022میں یہاں تعلیمی سیشن جو نومبر تک ہوتا تھا کو مارچ میں منتقل کردیا گیا تھا کو واپس نومبر دسمبر تک لانے کے لئے متعلقین اور ماہرین تعلیم کی آرا ءحاصل کرنے کے بعد کوئی مناسب فیصلہ لیا جاے گا جبکہ موجودہ حکومت کے نزدیکی ذرایع کا کہنا ہے کہ دربار موﺅکو دوبارہ بحال کرنے کے لئے بھی حکومت سنجیدگی کے ساتھ سوچ وچار کررہی ہے ۔یہ ایسے دو اہم معاملات ہیں جن کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہئے کیونکہ لوگ اور خاص طور پر جموں کے تاجر چاہتے ہیں کہ دربار کی قدیم روایات کو برقرار رکھا جاے کیونکہ اس سے ان کا روزگار وابستہ ہے اور جب دربار موﺅ ختم کردیا گیا وہ دانے دانے کو محتاج ہوگئے ۔جموں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ سرما کے دوران کئی لاکھ کشمیری جموں کا رخ کرتے ہیں اور جو بھی ملازمین ہیں وہ اب اکیلے نہیں بلکہ فیملیز کو لے کر آتے تھے اور جموں میں سرمائی ایام کے دوران بازاروں میں اچھی خاصی چہل پہل رہتی تھی اور کشمیری مرد و زن جم کر خریداری کرتے تھے ۔لیکن جب سے درباو موﺅ کی روایت معطل کردی گئی تب سے جموں کی تاجر برادری سخت ترین مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہے ۔وہ بار بار اپنی پریشانیوں کا رونا روتے رہے لیکن ہر بار ان کو مایوس لوٹنا پڑا ۔لیکن اب جبکہ سرکاری طور پر دربار موﺅ کی بحالی کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگی ہیں جموں کے لوگوں اور خاص طور پر ٹریڈر ز کے چہرے کھلنے لگے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد حکومت کو چاہئے کہ دربار موﺅ کی بحالی کا اعلان کرے تاکہ جموں میں پھر سے سرمائی ایام کے دوران رونق بحال ہوسکے اور بازاروں میں ماضی کی طرح پھر سے لوگوں کی چہل پہل دیکھنے کو مل سکے ۔قارئین کرام کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی سرکاری طور پر دربار موﺅ کی بحالی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا جاسکا ہے دریں اثنا وزیر تعلیم سکینہ یتو نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوے کہ مارچ تعلیمی سیشن کو واپس نومبر دسمبر میں منتقل کرنے کے لئے متعلقہ فریقین سے تجاویز طلب کی جاینگی ۔انہوں نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مناسب تجاویز کے بعد ہی اس بات کا فیصلہ لیا جاسکتاہے کہ وادی کشمیر کے لئے کون
سا تعلیمی سیشن مناسب ہوگا۔ادھر ماہرین تعلیم نے نومبر دسمبر سیشن دوبار شروع کرنے کی وکالت کرتے ہوے کہا کہ وادی میں ہر کوئی منصوبہ موسم کے تابع رکھ کر ہی بنایا جاسکتاہے اور وہی منصوبہ کامیاب بھی ہوسکتاہے ۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ جب یہاں نومبر سیشن شروع کیا گیا تو یہ فیصلہ بھی اُس وقت کی حکومت نے موسم کے حساب سے لیاتھا کیونکہ نومبر سیشن میں جب کشمیری طلبہ امتحانات سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ فوری طور پر نئے سال کی تیاریاں کرتے ہیں کوئی گھر پر ٹیوشن لیتاہے تو کوئی کوچنگ کلاسز کا رخ کرتاہے اسے دسمبر سے اکتوبر تک نئی جماعت کے لئے پڑھنے کے بہت زیادہ مواقع ملتے ہیں اسلئے وہ اچھے نمبرات لے کر پاس ہوتے تھے اس کے برعکس مارچ سیشن میں طلبہ کو زیادہ وقت پڑھائی کا نہیں ملتاہے ۔نیز بہت سے طلبہ سرمائی ایام میں وادی سے باہر کے کوچنگ کلاسز میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں اور اگر مارچ سیشن چالو رکھا گیا تو طلبہ وہ طالبات کوچنگ کے لئے باہر نہیں جاسکتے ہیں جس کا براہ راست اثران کے تعلیمی کئیریر پر پڑتا ہے ۔ماہرین تعلیم کا کہناکشمیری طلبہ کیلئے نومبر سیشن مقابلتاًمناسب رہے گا۔