وادی بھر میں قدرتی آبی ذخائیر جس تیز رفتار سے سکٹر تے جارہے ہیں اس پر ماہرین ارضیات نے پہلے ہی تشویش ظاہر کی ہے اور اب یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان آبی ذخائیر کے سکڑنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے دس برسوں میں وادی میں صرف چند ہی آبی ذخائیر موجود رہینگے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ پولیوشن اور دوسری وجہ آبی زمین پر ناجائیز قبضہ اور ان پر ڈھانچوں کی غیر قانونی تعمیر ۔وادی منفرد اور دلکش جھرنوں ،ندی نالوں اور ان کے بلوریں پانیوں کے لئے پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے ۔لیکن ان دلکش جھرنوں اور میٹھے پانی کے چشموں اور ندی نالوں کی ہم حفاظت نہیں کرسکے ہیں ۔اس بارے میں ایک چھوٹی سی مثال دی جاسکتی ہے ۔شہر کے علاوہ قصبہ جات اور مختلف دیہات میں بڑی تعداد میں لوگوں نے آبی ذخائیر پر ناجائیز قبضہ کرکے وہاں رہایشی یا کاروباری ڈھانچوں کے علاوہ کچن اور گاﺅخانے تعمیر کئے ہیں ۔یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ بیشتر گھرانوں نے ان ہی آبی ذخائیر کے کناروں پر بیت الخلا ءاور غسل خانے تعمیر کئے ہیں ان سے نکلنے والی گندگی ،غلاظت اور انسانی فضلہ سیدھے ان آبی ذخائیر میں مل کر ان کے پانیوں کو ناقابل استعمال بنا رہے ہیں ۔قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا اس طرح کے آبی ذخائیر کے پانی کو استعمال کیا جاسکتاہے ؟یہ پانی تو گندگی اور غلاظت سے پُر ہوتاہے بعض گاﺅں والے اب بھی کپڑے دھونے ،برتن صاف کرنے اور مویشیوں کو نہلانے کے لئے ان ہی آبی ذخائیر کے پانی کو استعمال میں لاتے ہیں ۔جو لوگ اس طرح کا آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں نتیجے کے بطور ان کے بچے اور بڑے دونوں ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو بعد میں جان لیوا ثابت ہورہی ہیں ۔خاص طور پر ساوتھ میں اکثر و بیشتر لوگ ان ہی آبی ذخائیر کا پانی استعمال کرتے ہیں ۔آج کل کئی ایک دیہات میں بچے آلودہ پانی استعمال کرنے سے دست ،قے اور بدہضمی وغیرہ میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ان کے والدین از خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے بچے آلودہ پانی پینے سے بیمار پڑ گئے ہیں ۔ادھر ڈاکٹروں کا بھی کہناہے کہ آلودہ پانی پینے سے بچوں کی حالت غیر ہوگئی ہے ۔ولر لیک کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ایشیا کی اس بڑی جھیل کا پانی جو کبھی بلوریں تھا اس قدر آلودہ ہوگیا ہے کہ لوگ اس میں ہاتھ ڈالنا تک گوارا نہیں کرتے ہیں ۔اسی طرح شہر میں ژونغھ کوہل کی حالت اس قدر خراب ہوکر ر گئی ہے کہ اب یہ گندے اور گدلے پانی کا نالہ بن کر رہ گیا ہے سیاح کبھی اس نالے سے کشتیوں میں بیٹھ کر جہلم کی سیر کیا کرتے تھے لیکن اب ایک بھی کشتی اس نالے سے نہیں گذرتی ہے ۔اسی طرح خوشحال سر کے ارد گرد تو ناجائیز قبضے کے الزمات عاید کئے جارہے ہیں جس سے یہ سر انتہائی حد تک سکڑ کر رہ گیا ہے ۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے سرکاری زمین پر ناجائیز قبضہ کیا ہوا ہے تو اس سے یہ قبضہ چھڑوا کیوں نہیں کیا جارہا ہے ۔گذشتہ برس دعوی کیا گیا کہ ا س نالے کی صفائی کی گئی ہے لیکن اس کی حالت پھر سے بگڑ کر رہ گئی ہے ۔ اسی طرح براری نمبل کا بھی ایسا ہی حال ہے ۔اگر حکومت اس پر پھر سے توجہ نہیں دے گی تو واقعی اگلے دس برسوں میں پچاس فی صد آبی ذخائیر کا خاتمہ یقینی ہوگا۔