جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں چناﺅ سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں اور جہاں الیکشن کمشن کی طرف سے ان انتخابات کو صاف ستھرے طریقے پر منعقد کروانے کے لئے مختلف نوعیت کے اقدامات کئے جارہے ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل ہونے لگی ہیں اور سیاسی پارٹیاں متحرک ہوگئی ہیں ۔ہر سیاسی پارٹی آنے والے اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونا چاہتی ہے اور اس کے لئے انتخابی اتحاد کے لئے سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں ۔کانگریس رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی پارٹی صدر ملکا ارجن کے ساتھ سرینگر پہنچ گئے اور یہاں انہوں نے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے ساتھ ان کی رہایش گاہ پر ملاقات کی جو کافی دیر تک جاری رہی ۔اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے میڈیا کو بتایا کہ اسمبلی کی تمام 90سیٹوں پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیاں انتخاب لڑنے پر اتفاق رائے ہوا ہے اور اب صرف معاہدے پر دستخط ہونے باقی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دستاویزات تیار کی جارہی ہیں اور شام تک اس بارے میں ساری صورتحال واضع ہوجاے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم اکٹھے کام کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ جموں کشمیر کو سٹیٹ ہڈ کا درجہ دیا جاے گا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دوسری پارٹیوں کے ساتھ بھی انتخابی اتحاد کرنے کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں ۔دونوں رہنماﺅں یعنی راہل گاندھی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پی ڈی پی کے ساتھ رابطہ قایم کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا ہے ۔جبکہ سی پی آئی ایم کے تاری گامی نے بھی کانگریس نیشنل کانفرنس اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ ہم سب اکٹھے انتخاب لڑینگے ۔جہاں تک بھاجپا کا تعلق ہے تو اس نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں وادی سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا لیکن اب کی بار ایسا دیکھنے میں نہیں آرہا ہے کیونکہ بھاجپاذرایع نے وادی سے چناو لڑنے اور اپنے امیدوار کھڑے کرنے کااشارہ دیا ہے ۔وادی سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس پارٹی نے کس طرح کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اس بارے میں اگرچہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے لیکن بھاجپا کی طرف سے اس پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری رام مادھو کو جموں کشمیر میں الیکشن کی ذمہ داریاں سونپنے کا مقصد یہی ہوسکتاہے کہ ان کی خدمات کا فایدہ اٹھایا جاسکے ۔رام مادھو سال 2014سے سال 2018تک یہاں ہی رہے اور ان کی وجہ سے بھاجپا اور پی ڈی پی کے درمیاں اتحاد ہواتھا جس کے نتیجے میں کولیشن گورنمنٹ وجود میں آئی تھی ۔سال 2018کے بعد رام مادھو واپس چلے گئے جس کے بعد ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں لیکن گذشتہ دنوں رام مادھو کو واپس بلا کر یہاں ان کو انتخابات کے حوالے سے پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہیں؟محبوس ممبر پارلیمنٹ انجنئیر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بھی زور و شور سے چناﺅ میدان میں کود پڑی ہے اور اس پارٹی نے جنوبی کشمیر سے پارٹی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کیا ہے ۔ پارٹی کے ترجمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ عوامی اتحاد پارٹی کسی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حق میں نہیں ہے ۔ادھرسجاد لون کی پیپلز کانفرنس کی سرگرمیاں ابھی تک شروع نہیں ہوسکی ہیں ۔جمہوری طرز نظام میں ہر ایک کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی ہے ۔یہی جمہوریت کی آن بان اور شان ہے ۔آنے والے ایام میں دوسری پارٹیوں کے درمیان انتخابی اتحاد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتاہے ۔جن میں الطاف بخاری کی اپنی پارٹی ،پیپلز کانفرنس وغیرہ شامل ہیں ۔