اخبارات اور سوشل میڈیا پر روز اس نوعیت کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن میں لوگ مختلف طبی مراکز کے بارے میں شکائتیں کرتے ہیں کہ ان اداروں میں عملے کی کمی ہے ۔یا ان طبی اداروں میں نصب مشینری اچھی طرح سے کام نہیں کرتی ہے یا یہ کہ ان مشینوں کو چلانے والے دستیاب نہیں ہیں جس کی بنا پر ان طبی اداروں کی اہمیت و افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔طبی ادارہ چاہے چھوٹا ہویا بڑا ان سب کی اہمیت ایک جیسی ہے کیونکہ بڑے ادارے میں بھی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ چھوٹے طبی مراکز میں بھی مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔کل ہی ایک معاصر روزنامے نے شہ سرخیوں کے ساتھ ایک ایسی خبر شایع کی جس سے عام لوگوں میں فکر و تشویش بڑھتی جارہی ہے ۔اس خبر کے مطابق صورہ سکمز میں آیو ڈین تھرپی اور تھائی رائیڈ سکین کے لئے درکار تابکاری مواد موجود نہیں ہے اور ممبی کی جو کمپنی سکمز صورہ کو یہ سب چیزیں فراہم کرتی تھیں اس نے ان کو بند کردیا ہے اسی طرح ایک اوراخبار میں ایک خبر شایع ہوئی ہے جس میں کہا گیا کہ ژیر کوٹ لولاب میں ایک نیو ٹایپ پرائیمری ہیلتھ سنٹر میں نہ مشیزی ،نہ بھر پور عملہ اور نہ ہی مشینوں کو چلانے والے ملازمین موجود ہیں ۔وادی کے دوسرے ضلع صدر مقامات پر جو بڑے ہسپتا ل ہیں ان میں بھی مختلف چیزوں کی کمی پائی جاتی ہے ۔ ژیر کوٹ کے ہیلتھ سنٹر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہاں عملہ بھی کم ہے اور ایکسرے مشین کو چلانے والا ابھی تک تعینات نہیںکیا گیا ہے ۔جس پر لوگوں نے ناظم صحت کے پاس باضاطہ شکایت درج کی ہے اور انہوں نے لوگوں کی شکایت پر جو ردعمل ظاہر کیا اس میں انہون نے لوگوں کو بتایا کہ اس ہلیتھ سنٹر کے لئے بہت جلد سند یافتہ ڈاکٹر تعینات کیا جاے گا۔اس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کی اس ہلیتھ سنٹر کے حوالے سے دوسری شکایتوں کا ازالہ کرنے کا بھی یقین دلایا ہے ۔چونکہ یہ صحت کا معاملہ ہے جس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کی گنجایش نہیں ہوتی ہے ۔اسلئے طبی مراکز میں اگر کسی بھی چیز کی کمی ہو چاہئے عملے کی کمی ہو ،مشینری اپ ٹو ڈیٹ نہیں یا ٹیکنشینز نہیں اس جانب محکمے کو توجہ دے کر ان کمیوں کو پورا کرنے کے انتظامات کرنے چاہئے تاکہ مریضوں کو کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔جہاں تک سکمز صورہ کا تعلق ہے تو شمالی ہندوستان کے بڑے طبی اداروں میں یہ ایک ہے جس کی ایک خاص اہمیت ہے اس لئے اس ادارے کے بارے میں شکایتیںنہیں آنی چاہئے لیکن سب سے بڑا مسلہ اب یہی ہے کہ وہان آیوڈین تھرپی اور تھائی رائیڈ کے لئے درکار تابکاری مواد موجود نہیں ۔اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ کینسر سمیت دیگر سینکڑوں مریضوں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اگر ایسی صورتحال ہے تو وہاں مقامی ایڈمنسٹریشن اس معاملے کو فوری طور حل کرنے کی کیوں نہیں کرتی ہے ۔اسلئے طبی مراکز کا ہر مہینے ایک ایسا آڈٹ ہونا چاہئے جس میں یہ دیکھا جاسکے کہ اس ادارے میں کس چیز کی کمی ہے تاکہ اسے فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔وادی ایک ایسا خطہ ہے جہاں بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے اسی حساب سے یہاں بیماریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں اسلئے حکام کو چاہئے کہ وہ ہلیتھ کئیر کو چست درست حالت میں رکھنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔