جے کے اے ایس امتحانات میں جن کشمیری امیدواروں نے کامیابی حاصل کرلی وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ اس امتحان کو پاس کرنا بچوں کا کھیل نہیں بلکہ اس کے لئے حد سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے جنرل نالج پر عبور حاصل کرنا پڑتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ زبان پر بھی عبور ہونا چاہئے تاکہ امیدوار جو کچھ تحریر کرے پرچہ دیکھنے والے پر اس کا یہ اثر ہونا چاہئے کہ واقعی امیدوار نے کافی پڑھائی کی ہے اور اسے زبان کا بھی پوری طرح ادراک ہے غرض حال ہی میں پبلک سروس کمیشن کی طرف سے امتحانی نتایج کا اعلان کیا گیا تو یہ دیکھ کر سب لوگ خوش ہوگئے کہ کشمیری طلبہ ارو طالبات نے اپنی قابلیت کی دھاک بٹھادی ۔لیکن جو امیدوار اس امتحان میں ناکام ہوئے ان کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے بلکہ محنت جاری رکھنی چاہئے اور اگلے چانس کے لئے تیاری کرکے رکھنی چاہئے ۔ایک ہی ضلع سے تقریباًایک درجن طلبہ کی کامیابی سے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اس ضلع کے لڑکے لڑکیاں کافی محنت کرتی ہیں جبکہ دوسرے اضلاع سے تعلق رکھنے والے بچے بھی آگے بڑھ رہے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک یہ بات کچھ ناممکن سی لگتی تھی کہ کشمیری طلبہ کسی مسابقتی امتحان میں اتنی تعداد میں کوالیفائی کرسکینگے لیکن کشمیری امیدواروں نے یہ کرکے دکھایا کہ کہ’ وہ کسی سے کم نہیں‘۔یہ مشہور مقولہ ہے کہ محنت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا۔اس مقولے پر عمل کرتے رہنا چاہئے ۔ان حالات میں جبکہ آج کل نوجوانوں کی اکثریت بری عادات میں پڑ گئی ہے یعنی نشے کی لت ان کو لگ گئی ہے ۔آوارہ گردی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے اور چوبیس گھنٹے موبایل سے چپکے رہنا اب ان کی عادت بنتی جارہی ہے ۔اس سب کو چھوڑ کر صرف پڑھائی کرکے جے کے ایے ایس امتحان پاس کرنے والے واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔جنہوں نے نہ تو آوارہ گردی میں وقت گذارا ،نہ نشہ آور اشیاءکا استعمال کرکے اپنا مستقبل تباہ کردیا اور نہ ہی چوبیس گھنٹے موبایل سے چپکے پڑے رہے بلکہ ان امیدواروں نے اپنی محنت لگن ،اعتماد اور عزم کا بھر پور مظاہرہ کرکے امتحان پاس کیا اور اپنے لئے تابناک مستقبل کا سنگ بنیاد رکھا ۔اب یہ جلد ہی ایڈمنسٹریٹو سروس میں اعلی عہدوں پر براجمان ہوکر ملک و قوم کی خدمت کریں گے ۔ان کے مقابل میں نشے کی لت میں مبتلا نوجوان نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا ۔آوارہ گردی کرنے والا عمر بھر کبھی بھی کوئی مسابقتی امتحان پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتاہے ۔لوگ اس کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں سماج میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی اور تو اور گھر والے بھی ان کے ساتھ نفرت کرتے ہیں ۔زندگی عزت و وقار سے گذارنے کے لئے کڑی محنت کرنا پڑتی ہے ۔نوجوانی کی عمر محنت کرنے کی ہوتی ہے جو اس عمر میں تساہل پسندی سے کام لیتا ہے ۔نکمے پن کا مظاہرہ کرتا ہے ۔آوارہ گردی میں اپنا قیمتی وقت گذارتا ہے وہ کبھی بھی زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتاہے وہ ہمیشہ ناکام ہی رہتا ہے اور اپنے والدین کے سر وں پر بوجھ بن کر رہتا ہے ۔ایسے نوجوانوں کے لئے یہ ایک نصیحت ہے کہ وہ بھی محنت و مشقت سے کام لے کر اپنا مستقبل تابناک بنائیں تاکہ آنے والا کل ان کے لئے خوشیاں ،مسرت اور تابناکی لائے ۔