موسموں کا تغیر و تبدل کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں لیکن گذشتہ کئی برسوں سے موسم اپنی انتہا کو پہنچنا شروع ہوگئے ہیں یعنی جس خطہ ارض میں گرمی کا موسم ہووہاں حد سے زیادہ گرمی پڑتی ہے اور جس خطے میں سردی کا موسم ہوتا ہے وہا ں غضب کی سردی ہوتی ہے ۔ماہرین موسمیات کا اس بارے میں یہی کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانوں کے رہہن سہن اور کھانے پینے کی عادتوں میں انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم اپنی انتہاءکو پہنچنے لگے ہیں ۔اس سال حج کے دوران موسم 52ڈگری تک پہنچا تھا جس پر سعودی حکام کی طرف سے عازمین کو باربار تلقین کرنا پڑی کہ وہ کسی بھی صورت میںدن کے وقت باہر جانے کی کوششیں نہ کریں۔دنیا کے ہر خطے یعنی یورپ ،ایشیا ،امریکہ ،افریقہ ،مشرق وسطیٰ وغیرہ میں موسم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور گرمی حد سے زیادہ محسوس کی جانے لگی۔اب اگر اسی سال ایسا ہوتا تو لوگ اس کو برداشت کرلیتے لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے لوگوں سے کہا کہ دنیا گرمی کی شدت میں اضافے کا مقابلے کیلئے تیار ہوجائے ۔یورپی میڈیا کے مطابق چین امریکا اور یورپ میں غیر معمولی گرمی پڑ رہی ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خبر دار کیا کہ دنیا کو ابھی گرمی کی شدت میں غیر متوقع اور بڑے اضافے کا سامنا کرنا ہوگا اور اگر اس کی قبل از وقت تیاری نہیں کی گئی تو بہت زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے انہوں نے کہا کہ ماحولیات پر اکٹھے اور باقاعدہ منظم طریقے پر منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے عالمی اداروں سے درختوں کی کٹائی ،آبی گذر گاہوں پر عمارات کی تعمیر اور ایسے کسی بھی اقدام کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جس سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال امریکا میں گرمی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے جبکہ چین میں درجہ حرارت 52ڈگری کو بھی پار کرگیا ہے ۔اٹلی میں جہاں ہمیشہ درجہ حرارت اعتدال پر رہتا تھا میں بھی یہ حدسے زیادہ محسوس کیاجانے لگاہے ۔کہا جارہا ہے کہ کینیڈا کے جنگلوں میں پانچ سو سے زیادہ مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے ۔اور اسی طرح کی صورتحال بلیجیم ،اسپین ،یونان اور سوئیزر لینڈ کے جنگل بھی آگ سے تباہ ہونے لگے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا بھر کے ممالک سیاست ،حسد ،ضد اور عداوت کو چھوڑ کر اس اہم مسلئے سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی نہیں اپنا ئینگے تب تک لوگ گرمی سے مرتے رہینگے ۔اس کا اثر زراعت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی پر بھی پڑ سکتا ہے اور اس طرح زندگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا ہے کہ موت کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ڈاکٹر بھی حیران و پریشان ہیں کہ اب موسمی تغیر تبدل کے نتیجے میں انسان جن بیماریوں میں مبتلا ہوگا ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اسلئے ہر ایک کو اپنی اپنی انفرادی سطح پر ماحولیات کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے کچھ نہ کچھ کاروائی کرنی ہی چاہئے تاکہ انسانوں کو بچانے میںہر کوئی اپنا اپنا رول ادا کرسکے ۔