گذشتہ کئی برسوں سے وادی میں جرایم کی رفتار جس تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اس پر ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں فکر و تشویش کا اظہار کیاجانے لگاہے اور ان جرایم پر قابو پانے کی کوششوں مین تیزی لانے کے لئے ہر کوئی اپنا تعاون پیش کرنے کے لئے تیار ہے ۔ایک اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ جب تک سماج جرایم کے خلاف کاروائیوں میں پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تب تک جرایم کا قلع قمع نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ صرف پولیس کے ذریعے جرایم پر قابو پانے کی امید رکھنا عبث ہے ۔اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ سماج کے خاص طور پر دانشور طبقے پر اس بارے میں بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں کہ وہ جہاں تک ہوسکے جرایم اور جرایم پیشہ افراد کے خلاف اپنی جدو جہد کو تیز کرکے جرایم کرروکنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ایک اعلیٰ ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ نہ صرف خواتین کے خلاف جرایم کی رفتار بڑھتی جارہی ہے بلکہ اب لوٹ مار کے واقعات بھی بڑھنے لگے ہیں اس پولیس افسر جو اصل میں وادی سے تعلق نہیں رکھتا ہے کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اس طرح کے جرایم کا تصورتک نہیں کیاجاسکتا تھا جس طرح کے جرایم اس وقت ہورہے ہیں ۔اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ گھریلو نوعیت کے فسادات رونما ہوتے تھے اور ساس بہو یا میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے رہتے تھے لیکن اب ایسے جرایم سرزد ہونے لگے جس طرح کے جرایم باہر کی ریاستو ں میں ہوتے رہے ہیں ۔قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ پچھلے دو ماہ کے دوران یہاں چھرا زنی کے تقریباً ایک درجن واقعات میں جو افراد زخمی ہوگئے ہیں ان میں سے دو اس دنیا سے چل بسے ۔جبکہ زخمیوں میں سے کئی اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔کل پرسوں ہی بڈگام میں ایک ریٹائیرڈ پولیس افسر پر کلہاڑی سے حملہ کرکے اسے شدید طور پر زخمی کردیاگیا۔غرض اب اس طرح جرایم کا ارتکاب ہونے لگا ہے جس کا تصور اس سے پہلے کبھی نہیں کیاجاسکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں یہاں کے حالات اس حوالے سے روز بروز بگڑتے جارہے ہیں ۔دوسری جانب خواتین کے خلاف بھی جرایم بڑھتے جارہے ہیں ۔خواتین کی عزت و ناموس پر حملے اب روز مرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ان ہی دنوں ایک عبرتناک واقعہ رونما ہوا جس کو لکھتے ہوے بھی ہاتھ کانپ رہے ہیں یعنی عمر رسیدہ شخص نے ایک قریبی رشتے کی لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔اسی طرح بارہمولہ اور دوسرے کئی مقامات پر بھی جسم فروشی کے اڈوں کا سراغ لگایا گیا۔اس سے قبل باغ ماہتاب میں بھی جسم فروشی کے ایک اڈے کا سراغ لگایا گیا تھا ۔نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے اور ان کو راہ راست پر لانے کی سنجیدہ نوعیت کی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں ۔سماج میں ہر سو اور ہر طرف برائیاں ہی برائیاں نظر آرہی ہیں ۔نوجوانوں کا رحجان دین کے بجاے ایسے کاموں کی طرف مڑنے لگا ہے جو باعث شرم ہیں اسلئے پولیس کے علاوہ ہمیں خود میدان کار زار میں اتر کر سماج کو بدلنا ہوگا اور یہاں سے جرایم کا قلع قمع کرنے کے لئے نہ صر ف مشترکہ طور پر کوششیں کرنی ہونگی بلکہ اس معاملے میں پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ تال میل بڑھانا ہوگا۔