سرما میں زیادہ تر بچے اور عمر رسیدہ لوگ جن بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان سے بچاﺅ کے لئے کیا کیا تدابیر اٹھانی چاہیں اس بارے میں صرف ماہرین طب ہی مناسب مشورہ دے سکتے ہیں جبکہ ان بیماریوں سے بچاﺅ کے لئے کبھی کبھار گھریلو ٹوٹکے بھی کام آتے ہیں۔سرکار کی طرف سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سرما میں لگنے والی بیماریوں سے بچاﺅ کے لئے وقتاً فوقتاًاشتہارات شایع کئے جاتے ہیں یا اس بارے میں دوسرے تشہیری ذرایع کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس بارے میں باخبر رہ سکیں کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں فوری طور پر بچاﺅ کے لئے کیا کچھ کرنا ہے یعنی جب تک بیمار کو ڈاکٹر ی ملاحظے کے لئے لے جایا جاے گا تب تک اسے کیا کرنا ہے تاکہ کوئی پیچید گی پیدا نہ ہوسکے ۔اس وقت ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد کھانسی ،بخار ،نزلہ زکام یا سر درد میں مبتلا ہے اور ہر گھر ادویات سے بھرا پڑا ہے ۔لیکن لوگ یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ انہیں اصل بیماری کون سی ہے جو صرف ایک ماہر ڈاکٹر ہی بتاسکتا ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ بیماریوں کی صورت میں از خود ادویات کا استعمال ترک کریں۔ کبھی کبھار ان ادویات کے منفی اثرات رونما ہونے لگتے ہیں جس سے لوگوں کو مزید کئی بیماریاں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔12نومبر کو عالمی نمونیا دن کے طور پر منایا گیا اور اس دن کی مناسبت سے یہاں مختلف سطحوں پرتقریبات منعقد ہوئیں جن میں لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ سرمائی بیماریوں سے بچاﺅ کے لئے از خود کوئی دوائی استعمال نہ کریں بلکہ ڈاکٹری مشورے کے بعد ہی اس بارے میں مناسب قدم اٹھائیں ۔عام طور پر جب بچے کو بخار کھانسی وغیرہ ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ سرمائی بیماریوں میں سے ایک ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ نمونیا بھی ہوسکتا ہے ۔اس بارے میں تب ہی پتہ چلا جب سرکاری طور پر اخبارات میں اشتہارات شایع کرواے گئے جن میں لکھا گیا تھا کہ ان ان علامات کا مطلب نمونیہ ہے ۔جن کے بارے میں عام لوگوں کو کوئی علمیت ہی نہیں ہے ۔اس کو دیکھتے ہوے قومی صحت مشن کے ان اقدامات کی سراہنا کی جاسکتی ہے جن کے تحت لوگوں کو بذریعہ اشتہارات اس بات کی جانکاری دی جاتی ہے کہ مختلف بیماریوں کی کون کون سی علامات ہو سکتی ہیں ۔سرما شروع ہوتے ہی وادی میں رہنے والے لوگوں کو مشکلات و مسایل گھیرے میں لے لیتے ہیں اور سب سے بڑا مسلہ ان بیماریوں کا ہے جو ہم کو موسم سرما میں بطور وسوغات ملتی ہیں۔ان حالات میں لوگوں کو مناسب طبی امداد فراہم کرنے کے لئے محکمہ ہیلتھ اور میڈیکل ایجو کیشن کو اس بات کی طرف ضرور دھیان دینا چاہئے کہ کس طرح عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طبی امداد اور وہ بھی بروقت بہم پہنچایا جاسکے ۔اس کے لئے سب سے پہلے ہسپتالوں میں منی آوٹ ڈور ہیلتھ سنٹرز کا قیام عمل میں لانا چاہئے ۔تاکہ وہ ڈاکٹر صاحبان جوپہلے سے ہی قایم آوٹ ڈورز میں کام کرتے ہیں ان کو کوئی پرابلم پیش نہ آسکے ۔اس وقت ہزاروں ڈاکٹر ہر شعبے میں دستیاب ہیں جو نوکریوں کے انتظار میں ہیں ان کو فوری طور پرappointکیا جاسکے تااس معاملے میں سرکار کی مدد کرسکیں۔