وادی میں رہنے والے لوگوں کو ایک مسلہ درپیش ہو تو کہا جاسکتا ہے لیکن یہاں تو مسلئے مسایل کی بھر مارہے مشکلات اور غموں کے پہاڑ سامنے کھڑے ہیں کس کس سے فریاد کریں ؟اب لوگ بھی تھک گئے ہیں کیونکہ مشکلات ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔سرما میں لوگوں کو بجلی کی کمی کا سامنا رہتا ہے ۔لیکن اس بار امید تھی کہ جیسا کہ سرکاری طور پر بتایا جارہا ہے کہ اب شیڈول کے بغیر کسی بھی علاقے میں بجلی آف نہیں رکھی جاے گی لیکن ابھی سے بجلی کی جو صورت حال ہے وہ از خود اپنا حال بیان کررہی ہے ۔اب رات رات بھر پاور بند رکھا جارہا ہے اور دن کو بھی صرف چند گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے یہ شہر کا حال ہے گاﺅں میں بجلی محض براے نام ہے ۔دوسری جانب سرکاری بیان آیا ہے جس میں کہاگیا کہ جن علاقوں میں صارفین زیادہ سے زیادہ فیس ادا کرینگے ان علاقوں میں بجلی چوبیس گھنٹے چالو رکھی جاے گی لیکن افسران بالا کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت جیسا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ نوے فیصد صارفین باقاعدگی سے بجلی فیس ادا کرتے ہیں ۔اور اگر کسی کو بجلی فیس بقایا ہے تو وہ سرکاری ڈیپارٹمنٹ ہیں جن کے پاس کروڑوں کی بجلی فیس واجب الادا ہے ۔اگر ان محکموں سے بجلی فیس وصول کیاجاےگی تو اس طرح پچانوے فی صد بجلی فیس خزانے میں جمع ہوگی جس کے بعد حکومت کے پاس یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا کہ لوگ بجلی فیس ادا نہیں کرتے ہیں۔شہر و گام لوگ ہر روز اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ بجلی کی سپلائی پوزیشن کافی ابتر بن گئی ہے اور اس وقت بغیر پیشگی اطلاع رات رات بھر بجلی آف رکھی جاتی ہے لیکن متعلقہ حکام اس بارے میں کوئی مثبت یا ٹھوس جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔اب آگے کیا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا ناممکن ہے کیونکہ بجلی حکام کہتے کچھ اور رہیں اور کرتے کچھ اور ۔اسی طرح جہاں تک پینے کے صاف پانی کا تعلق ہے تو اس کی فراہمی کا بھی یہی حال ہے روزانہ کئی کئی گھنٹے بغیر پیشگی اطلاع پانی بند رکھا جارہا ہے ۔ادھر وادی میں ان لوگوں جن کے مکان زیر تعمیر ہیں نے بتایا کہ ان کو رعایتی نرخوں پر عمارتی لکڑی دستیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔اس بارے میں لوگ یعنی ضرورتمند سٹیٹ فاریسٹ کارپوریشن کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس کارپوریشن کو واضع ہدایات دی تھیں کہ ضرورتمندوں کو رعایتی نرخوں پر عمارتی لکڑی فراہم کی جاے لیکن یہ کارپوریشن اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور اس وقت بقول ان کے صورتحال یہ ہے کہ کارپوریشن کے ڈیپو خالی پڑے ہیں ۔تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں بھی اضافے کے رحجان پر لوگوں میں فکرمندی کا اظہار کیاجارہا ہے ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی میٹریل کا کوئی ریٹ لسٹ نہیں اور اس طرح جو اس کاروبارسے جڑے ہیں وہ اس بارے میں من مانیاں کررہے ہیں لیکن ان کا چونکہ کوئی احتساب نہیں اسلئے وہ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ضرورتمندوں کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے لیکن تعمیراتی میٹریل کی جسطرح قیمیتں بڑھائی جارہی ہیں وہ ناقابل برداشت بنتی جارہی ہیں۔