راشن گھاٹوں سے ہر ماہ راشن لینے کا تصور ہی اب آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے کیونکہ اب راشن گھاٹوں سے صارفین کو براے نام غلہ فراہم کیاجاتا ہے جبکہ مٹی کا تیل اور آٹے کا کوٹا پہلے ہی بند کردیا گیا ہے ۔صارفین کا کہنا ہے کہ اب راشن گھاٹوں سے ہر ماہ فی نفر پانچ کلو چاول فراہم کئے جاتے ہیں ۔یہ پانچ کلو اسے تیس دنوں کے لئے دئے جاتے ہیں اور جب اس کا حساب لیا جاتا ہے تو ہر شخص کو دن میں 166گرام چاول استعمال کرنے ہیں جو ایک چھوٹے سے پرندے کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں ۔صارفین اسے مذاق قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ قبل تک سرکار کی طرف سے راشن گھاٹوں پر ہی اضافی راشن فراہم کیا جاتا تھا لیکن اب وہ سلسلہ بند کردیا گیا اور اب صارفین کو ا سطرح کھلے بازار میں غلہ داروں سے چاول خریدنے کے لئے مجبور کردیا گیا ہے اور بازار مین ان کو ہر حالت میں اونچے داموں غلہ خریدنا پڑتا ہے ۔حکومت جن مخصوص زمروں کے تحت لوگوں کو چاول فراہم کرتی ہے وہ بھی ناکافی ہے کیونکہ پانچ کلو سے کسی کا مہینے بھر پیٹ نہیں بھرا جاسکتا ہے ۔صارفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد مرتبہ یہ معاملہ محکمہ امور صارفین کے نوٹس میں لا یا لیکن محکمے کے افسر اس بارے میں خاموش ہیں ۔صارفین کا کہنا ہے کہ جب کسی چیز کی مانگ بڑھ جاتی تھی تو سرکار فوری طور اس کو راشن کے طور پر ہر ماہ صارفین کو فراہم کرتی تھی وہ بھی راشن ٹکٹوں پر ۔اس وقت سرکار کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ صارفین کو یہ اشیاءکھلے بازار سے اونچے داموں خریدنا نہ پڑیں ۔ان اشیاءمیں آٹا اور مٹی کا تیل بھی شامل ہے لیکن آج یہ دونوں اشیا ءصارفین کھلے عام بازاروں سے خرید رہے ہیں ۔غلہ چونکہ کم دیا جاتا ہے وہ بھی بلیک میں بازار سے خریدنا پڑرہا ہے اس طرح لوگوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں ۔اگر حکومت اس معاملے پر از سر نو غور کرے گی تو لوگوں کو راحت مل سکتی تھی لیکن اب تو مہینے بھر کی غذائی اجناس یعنی چاول ،آٹا اور مٹی کا تیل بھی بلیک میں صارفین کو خریدنا پڑتا ہے اور بلیک کا مطلب ہے کوئی بھی چیز اونچے داموں خریدنا۔صارفین کی طرف سے بار بار محکمہ امور صارفین کو اس جانب خصوصی توجہ دینے اور لوگوں کو راحت دینے کے مطالبے کئے جاتے رہے لیکن اب تک اس بارے میں کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے ۔دوسری جانب بازاروں میں ہر غذائی اجناس کی قیمتوں میں آے روز اضافہ کیا جارہا ہے جس پر کوئی روک ٹوک نہیں کیونکہ ساگ سبزیوں کی قیمتیں تو کافی زیادہ بڑھادی گئی ہیں۔جبکہ دوسری ضروری چیزوں کے دام بھی بہت زیادہ ہیں ۔ان حالات میں عام صارفین کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔اسلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے فوری اقدامات کرے اور خاص طور پر راشن گھاٹوں سے غذائی اجناس یعنی چاول کا کوٹا بڑھادیا جاے ۔