گذشتہ دنوں شہر کی پر تاپ پارک میں پیش آیا ہوا واقعہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائیرل ہوا جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور اس پر تبصرے شروع کئے ۔اب پولیس بھی میدان میں آگئی اور ایک خاتون سے پوچھ گچھ شروع کردی گئی ۔سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اس سے قطع نظر دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیونکر ہوا ۔وادی جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ تصور کی جاتی تھی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی جہاں اب اس طرح کے واقعات رونما ہونے لگے جن کا اس سے پہلے تصور تک نہیں کیاجاتا تھا۔خودکشیوں کے واقعات تو ہر ہفتے دو ہفتے کے بعد رونما ہوتے ہیں ۔نوجوانوں کے درمیاں لڑائی جھگڑے اب روز مرہ کی بات بن گئے ہیں ۔نشے میں دھت افراد سرشام سڑکوں اور بازاروں میں لڑکھڑاتے ہوے دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ شہر کے بعض علاقے اب نشہ آور اشیاءکا استعمال کرنے والوں کیلئے مستقل اڈوں کی صورت میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔عام شہری اگر چاہے بھی تو ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتا ہے اور نہ کسی سے فریاد کرسکتا ہے ۔اب یہ پولیس اور انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف سخت کاروائی کرے جو نوجوانوں کو نشے کا عادی بناکر لاکھوں اینٹھ لیتے ہیں۔آج کل دیکھا جارہا ہے کہ سکولوں اور کالجوں کے باہر بعض افراد مشکوک حالت میں گھومتے رہتے ہیں پولیس کو ایسے افراد کو پکڑ کر ان سے پوچھ گچھ کرنی چاہئے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو نوجوانوں کو شیشے میں اتار کر ان کو نشے کا عادی بناکر ان کے مستقبل کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں ۔پولیس نے گذشتہ دنوں ان دو نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جنہوں نے ایک بوڑھے شخص کی مارپیٹ کی اور اس کی جمع شدہ پونجی پر ہاتھ صاف کردیا ۔جہاںپولیس کا یہ اقدام قابل تعریف ہے وہیں دوسری طرف پولیس کو ان پبلک مقامات پر کڑی نگرانی رکھنی چاہئے جہاں آوارہ اور بدچلن نوجوان لڑکیوں کو ستاتے ہیں اور ان کو طرح طرح سے تنگ کرکے بسا اوقات موبایل سے ان کے فوٹو کھینچ کر ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے نوجوانوں کو لازمی طور پر جیل کی ہوا کھلانے کی ضرورت ہے ۔ہمارے سماج میں ایسے بے شمار نوجوان ہیں جن کو رشتوں کی قدر و قیمت معلوم ہے جن کو اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ خواتین کی کتنی اور کس قدر عزت و تکریم کرنی چاہئے لیکن گنے چنے ایسے بھی نوجوان ہیں جو اپنی کالی کرتوت سے سماج میں گندگی اور غلاضت پھیلا کر کشمیراور کشمیریت کو بدنام کرتے ہیں ۔ہر سماج میں کالے بھیڑئے ہوتے ہیں لیکن کشمیر خاص طور پر وادی میں ایسے واقعات کبھی بھی رونما نہیں ہوتے تھے جیسے آج کل ہورہے ہیں اسلئے لوگوں کو بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اٹھ کھڑا ہونا ہے اور ان لوگوں کے خلاف کاروائی میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو تعاون دینا چاہئے تاکہ کشمیر اور کشمیریت بدنام نہ ہونے پائے ۔کشمیر روز اول سے ہی جیسا کہ پہلے ہی لکھا جاچکا ہے امن و آشتی کا گہوارہ رہ چکا ہے اور آیندہ بھی اس خطے میں امن و سکون قایم رکھنے کے لئے ہر شہری کو اپنی اپنی ذمہ داریاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ادا کرنی ہونگی۔