راجستھان اور پنجاب کے بیوپاری ازخود وادی وارد، قربانی جانوروں کی مارکیٹ میں بہتات
سرکار کی جانب سے گوشت کے کاروبار کو ڈی کنٹرول قرار دئے جانے کے بعد وادی میں پہلی بار بیرونی ریاستوں سے بیوپاریوں نے ازخود مال پہنچانا شروع کیا ہے ۔اس وقت سرینگر میں راجستھان اور پنجاب کے کئی علاقوں سے بیوپاریوں نے ازخود بھیڑوں سے لدی ٹرکیں درآمد کی ہین اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پر عید الضحی کے موقعے کی مناسبت سے اپنا مال ازخود فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کوٹھدار سسٹم کو چیلنج کرنے والے اس نئے طرز کاروبار پر اگرچہ قصاب طبقہ نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے اور صارفین تک معیاری اور سستا گوشت پہنچنے کی ایک پہل قرار دے رہیں تاہم بعض کوٹھدار وں نے اسے یہ کاروبار بیرونی بیوپاریوں کے ہاتھوں سونپ دینے کے مترادف قرار دیا ہے ۔خبر رساں ایجنسی ٹی ای این کو معلوم ہوا ہے کہ راجستھان کے کئی علاقوں بشمول سیکر اور جے پور کے علاوہ انبالہ ،چندی گڑھ اور پنجاب کے دیگر کئی علاقوں سے متعدد بیوپاریوں نے اس بار ازخود کشمیر کے مارکیٹ تک رسائی کی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ متعدد بیرونی بیوپاریوں نے ازخود ٹرکوں میں مال لاد کر سرینگر اور دیگر مقامات پر مال پہنچایا ہے ۔اس سلسلے میں ایک بیرونی گوشت بیوپاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اب چونکہ حکومت نے گوشت کو کشمیر میں بھی ڈی کنٹرول کیا ہے ،اسلئے وہ بھی اب خود کشمیر کے مارکیٹ تک براہ راست رسائی کے خواہاں ہیں۔انہوں نے کہاکہ عید الاضحی کے موقعے پر کشمیر میں قربانی جانوروں کی بھاری خریداری ہوتی ہے اس لئے انہیں لگتا ہے کہ یہاں کا مارکیٹ بیرونی منڈیوں کے بجائے زیادہ منافع بخش ہوگا ۔اس دوران عام خریدار بھی مارکیٹ میں قربانی جانوروں کی بہتات دیکھ کر خوشی کااظہار کررہے ہیں ۔عید میں قربانی جانور کی خریداری میں مصروف صورہ کے فاروق احمد کا کہنا ہے کہ اس بار کوئی مارکیٹ کالابازاری نہین دکھ رہی ہے ۔مارکیٹ میں مال دستیاب ہے اور اس وقت کشمیری دنبے اور بیرونی ریاستوں سے درآمد مال کے درمیان ایک مسابقت جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔فاروق احمد کے مطابق وہ گذشتہ ایک ہفتے سے مارکیٹ سروے کررہے ہین اور اس دوران انہو ں نے سرینگر کے کئی مقامات پر اس وقت وافر مال دستیاب ہے تاہم خریداری کا اتنا رش دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ یہ قوت خرید میں کمی آنے کا شاخسانہ ہے بصورت دیگر اس بار مارکیٹ میں کوئی بھی پریشانی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔اس حوالے سے آل کشمیر بوچرس یونین صدر خضر محمد ریگو کا کہنا ہے کہ گوشت کاروبار کو ڈی کنٹرول کئے جانے کے اچھے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گوشت مارکیٹ میں 650روپے فی کلو ہی دستیاب ہے اور ہر جگہ اس کا اطلاق ہورہا ہے ۔خضر محمد کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ بیرونی منڈیوں اور علاقوں کے کاشتکار اور بیوپاری خود ہی یہاں آنے لگے ہیں۔اس طرح بائع اور مشتری کے درمیان درمیانہ داروں کا رول ختم ہوگا ۔اب مارکیٹ میں کھلا مقابلہ ہوگا اور اس کا لازمی فائدہ عام صارف کو ملے گا ۔دوسری جانب بعض کوٹھداروں نے بوچرس یونین صدر کے خیال سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئےکہاکہ مارکیٹ مین زیادہ سے زیادہ مال پہنچنے سے قیمتوں پر اچھا اثر پڑے گا لیکن ایک بڑا طبقہ جو ہول سیل کے ساتھ وابستہ تھا ،اکے روزگار اور کاروبار کو مشکلات درپیش آئیں گی ۔انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر ہم اپنی یونینوں کے پاس بھی جائیں گے اور آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے ۔کیونکہ ہزاروں لوگوں کے کاروبار پر جب اثر پڑنا شروع ہوگا تو اسکے خلاف آواز اٹھانی بھی لازمی ہوگی ۔