واشنگٹن/ ایجنسیز/ عراق میں دولت اسلامیہ سے لڑائی کی قیادت کی ذمہ داری اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے عراقی سیکیورٹی فورسز کو منتقل ہو گئی ہے۔ اس بات کا اعلان علی الصبح عراقی حکام نے کیا۔ اعلان میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج ضرورت پڑنے پر محض معاونت فراہم کرنے کا کام کریں گی۔دوسری طرف امریکی فوج کے کمانڈر برائے مشرق وسطی جنرل فرینک میکنزی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ عراق میں موجود 2500امریکی فوجیوں کو فی الوقت واپس بلانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور وہ عراقی فوج کو دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں فضائی اور دیگر فوجی امداد مہیا کرتے رہیں گے۔جنرل میکنزی نے امریکی محکمہ دفاع میں خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ جنگجو ملیشیا عراق سے تمام مغربی افواج کا مکمل انخلا چاہتی ہے، اور انہیں توقع ہے کہ اب امریکی افواج کو عراق سے نکالنے کے لئے مزید حملے کئے جائیں گے
۔دوسری طرف عراقی سیکیورٹی اور میڈیا سیل کے سربراہ، میجر جنرل سعد معن نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ ”عراقی سیکیورٹی افواج اور بین الاقوامی اتحاد کے درمیان مشاورت اور مدد کی سطح پر تعاون برقرار رہے گا”۔امریکی قیادت والی مربوط مشترکہ ٹاسک فورس، ‘آپریشن انہیرنٹ رزالو’ (Operation Inherent Resolve)کے عراق کے لیے جوائنٹ آپریشنز کمان کے نائب کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل عبدالعامر الشماری نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ صحیح وقت پر کیا گیا۔الشماری نے کہا کہ ”ہمارے فوجیوں نے داعش کو شکست دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مستقبل کے بارے میں ہمیں اچھی توقعات ہیں، امید کرتے ہیں کہ ہم عراق کے مرد و زن کے لیے استحکام، سلامتی اور خوش حالی کا باعث بنیں گے”۔اس سال جولائی میں وائٹ ہاو¿س میں عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات ہوئی تھی جس دوران یہی منصوبہ طے ہوا تھا اور اس بات کا پہلی بار اعلان کیا گیا تھا کہ عراق میں لڑاکا مشن بند کیا جائے گا۔