تندرستی ہزار نعمت ہے ۔یہ ایک پرانی کہاوت لیکن آج بھی اس کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی ایک سو سال قبل تھی ۔صحت کے معاملے میں کسی سمجھوتے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ کیا جانا چاہئے ۔7اپریل کو صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔یہاں بھی یعنی وادی میں بھی سمینار منعقد ہوئے ۔تقریبات کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور مقررین نے اس دن کی اہمیت بیان کی ۔لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ صحت کا خاص خیال رکھیں اورعلاج سے زیادہ پرہیز کی طرف دھیان دیں ۔لیکن آج زمینی سطح پر اس حوالے سے صورتحال انتہائی سنگین بلکہ اگر یہ کہا جاے کہ تشویشناک ہے تو کوئی مضایقہ نہیں ۔کیونکہ اس وقت جیسا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہر کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ پائی جاتی ہے اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات ہیں ۔آج سے پچاس ساٹھ برس قبل کا دور اور آج کے دور میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔اس وقت اتنی ماحولیاتی آلودگی نہیں پائی جاتی تھی جتنی آج ہے ۔اس وقت لوگ اتنی ملاوٹ نہیں کرتے تھے جتنی آج کرتے ہیں۔آبادی میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے تنگ و تاریک بستیاں معرض وجود میں آنے لگی ہیں ان میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ زندگی کہ ہر سہولت میسر نہیں اسلئے ان کا طرز زندگی گندگی اور غلاضت کے ارد گرد سمٹ کر رہ گیا ہے ۔ان میں رہنے والے صحت و صفائی کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔اب ان پر کیسے قابو پایا جاے گا یہ دیکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے ۔کیا یہاں ہیلتھ سڑکیچر ایسا ہے کہ ہر بیمار ہونے والے کو بھر پور طبی نگہداشت میسر ہوتی ہے ؟۔کیا ہر طبی مرکز میں اس بستی جہاں یہ مرکز قایم ہے میں آبادی کے تناسب سے ڈاکٹر ،نیم طبی عملہ اور سازو سامان موجود ہے؟ ۔یہی بنیادی سوال ہے ۔یہاں ایسے بہت سے دیہات ہیں جہاں دور دور تک کسی بنیادی طبی مرکز کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔لوگوں کو اپنے بیماروں کا علاج کروانے کے لئے کافی دور تک جانا پڑتاہے ۔اسی طرح جو پرائیمری ہیلتھ سنٹر یا سب سنٹر وغیرہ اس وقت قایم ہیں کیا ان میں مریضوں کے لئے تمام سہولیات دستیاب ہیں یا نہیں ۔آج صرف ڈاکٹروں کی موجودگی کی ہی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ طبی مرکز پر لازمی تشخیصی مشینری ،ان کو چلانے والا عملہ ،نیم طبی سٹاف وغیرہ سب کچھ موجود ہونا چاہئے لیکن جب ہم موجودہ طبی مراکز کا مشاہدہ کرتے ہیں تو سب کے سب مراکز میں تمام سہولیات دستیاب نہیں ہوتی ہیں اسلئے لوگوں کو مجبوراً پرائیویٹ طبی مراکز کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں ان کو علاج معالجے کی سہولیات کے حصول کیلئے کافی روپے پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔سرکاری سطح پر لوگوں کو اس وقت بھی اتنی سہولیات دستیاب نہیں جتنی لوگوں کو توقع تھی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ نیم طبی عملے اور دوسرے ملازمین کی کئی ہزار اسامیاں خالی پڑی ہیں جن کو پُر نہیں کیا جارہا ہے ۔اگر ان کو پُر کیا جاے گا تو لوگوں کو اس سے راحت ملتی ۔اسلئے حکومت کو اس جانب دھیان دے کر لوگوں کے لئے صحت کے حوالے سے سہولیات کو معقول بناکر ان بیماریوں کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے جو تیزی سے پھیل رہی ہیں اور ان پر قابو پانے سے ایک صحت معاشرہ جنم لے سکتاہے ۔










