کہا جارہا ہے کہ چوبیس برسوں کے بعد شہر سرینگر میں درجہ حرارت منفی 8.5ڈگری سینٹی گریڈریکارڈ کیا گیا ۔پورے شہر کیا پوری وادی میں لوگ سردی سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ۔روز مرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔چلہ کلاں نے آتے ہی قہر ڈھانا شروع کر دیا ۔موسم مسلسل خشک رہنے سے نہ صرف لوگ پریشان ہیں بلکہ بیماریوں نے بھی تقریبا ً نوے فی صد آبادی کو اپنی لپیٹ میں گھیر لیا ہے ۔پہلے موسم سرما میں لوگ خود کو گرم رکھنے کے لئے کانگڑیوں کا استعمال کرتے تھے لیکن اب کانگڑیوں کا استعمال برائے نام ہوکر رہ گیا ہے ۔اب الیکٹرانک آلات سے خود کو گرمی پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔بجلی نہ ہو تو گیس ہیٹروں سے کام چلایا جارہا ہے ۔اب بیشتر گھروں میں روایتی حمام استعمال کئے جارہے ہیں ۔غرض کانگڑیوں کا استعمال بہت کم ہورہا ہے ۔لیکن اس کے باوجود بجلی پر چلنے والے آلات کو اب بھی ترجیح دی جارہی ہے ۔لوگ اس کے لئے باضابطہ فیس ادا کرتے ہیں ۔اسلئے محکمے کو اس بارے میں کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔محکمے ہی کا کہنا ہے کہ اسی فیصد ڈیجیٹل میٹر نصب کئے گئے ہیں ۔گویا جن علاقوں میں ڈیجیٹل میٹر کام کررہے ہیں یعنی نصب ہیں ان میں اگر کوئی کسی بھی قسم کا الیکٹرانک آلہ استعمال کرتا ہے تو وہ اس کی باضابطہ فیس ادا کرتا ہے اور وہ بھی وقت پر ۔البتہ بجلی کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے ۔اب صورتحال اس حد تک بد تر ہوگئی ہے کہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک بجلی آف رکھی جاتی ہے ۔اس کے لئے بہانے تراشے جاتے ہیں ۔حقیقت میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ جن علاقوں میں ڈیجیٹل میٹر نصب کئے گئے ہیں ان علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی نہیں ہونی چاہئے تھی ۔منفی درجہ حرارت سے پانی کے نل بھی جمنے لگے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ کل شہر بھر میں پانی دستیاب نہیں تھا ۔بہت سے گھرانوں میں چولہے نہیں جلے کیونکہ نہ پانی نہ بجلی ۔کھانا کیسے پک سکتاتھا اور چائے وغیرہ کیسے بن سکتی تھی ۔کس کس علاقے کا بستی کا نام لیں غرض شہر میں ایسے نوے فیصد علاقے ہیں جن میں نہ پانی اور نہ ہی بجلی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے سردیوں میں بجلی کی بلاخلل فراہمی کے معاملے پر بجلی انجنیئروں کے ساتھ بات چیت کی وزیر اعلیٰ نے ان کو تلقین کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کٹوتی کا جو شیڈول جاری کیا گیا ہے اس پر سختی سے عمل درآمد ہو لیکن یہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔اب صارفین کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کب کٹوتی ہے اور کب نہیں ؟ کیونکہ نمازفجر کے ساتھ ہی بجلی آف ہوتی ہے اور پھر دن بھر بند رکھی جارہی ہے ۔بعض علاقوں میں بجلی حکام یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نئے پول لگائے جارہے ہیں جن پر تاریں بچھائی جارہی ہیں ۔صارفین یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب سردیوں میں پہلے ہی بجلی کے حوالے سے لوگ سخت پریشان ہیں ان حالات میں نئے پول نصب کرنے اور کیبل بچھانے کی کیا ضرورت ہے ۔اس پروجیکٹ کو سردیوں کے دو مہینوں کے لئے ٹالا بھی جاسکتاتھا ۔کیونکہ جن علاقوں میں بیک وقت پندرہ پندرہ سولہ سولہ گھنٹے بجلی بند رکھی جارہی ہے وہاں یہی بہانہ بنایا جارہا ہے کہ نئے پول نصب کئے جارہے ہیں اور کیبل بچھائی جارہی ہے جبکہ یہ کام موجودہ صورتحال کو دیکھ کر دو مہینوں کے لئے موخر بھی کیا جاسکتاتھا ۔










