آج کل ایک ایسا رحجان فروغ پارہا ہے کہ بچے کو ہر حال میں سو میں سے 98فی صد نمبرات حاصل کرنے ہیں جس کے لئے اس کی آزادی چھینی جارہی ہے ۔یعنی والدین بچے پر اس قدر دباﺅ ڈال رہے ہیں وہ بچپن کی ساری شوخیاں بھول کر کتابی کیٹرا بن جاتا ہے اور وہ دن رات صرف پڑھائی میں مشغول رہتاہے ۔تعلیم حاصل کرنا اپنی جگہ درست لیکن بچوں سے ان کا بچپنا چھین کر والدین اپنے لئے ایک بہت ہی بڑا مسلہ کھڑا کردیتے ہیں جس کے آثار آگے چل کر نمودار ہوتے ہین اور وہ اس قدر بھیانک ہوتے ہیں کہ والدین صرف ہاتھ پاوں مار سکتے ہیں جبکہ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایک بچہ جب امتحان میں 98فی صد مارکس لے کر پاس ہوجاتا ہے لیکن بقول ان کے یہ مارکس اس کے کسی بھی کام نہیں آسکتے اگر اسے مروجہ تعلیم کے ساتھ اخلاقی اور دینی تعلیم نہیں دی جاتی ہو۔اور آج کل یہی ہورہا ہے یعنی کسی بھی تعلیمی ادارے میں بچوں کو نہ تو دینی اور نہ ہی اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے ۔اور ماہرین نفسیات کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بچہ تعلیمی میدان میں کتنا ہی آگے کیوں نہ ہو لیکن اصل زندگی کے میدان میں وہ کافی پیچھے رہتاہے ۔یعنی سماج و سوسائیٹی میں کس طرح رہنا ہے ۔والدین کی کس طرح عزت کی جانی چاہئے بڑے بھائی بہنوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جانا چاہئے ۔اب قارئین کرام نہ جاننے کی کوشش کرینگے کہ اگر کوئی بچہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیتیں رکھتاہے تو پھر گھر پر بھی اس کا طریقہ کار اپنے والدین کے ساتھ اچھا ہی ہوگا لیکن یہ بات بالکل الٹ ہے یعنی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی بھر پور صلاحیتیں رکھتاہے لیکن والدین کے ساتھ وہ اس طرح خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا ہے جس طرح اسے ہونا چاہئے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں دینی اور اخلاقی تعلیم نہیں دی جاتی ہے ۔بچے اکثر اپنے والدین کو اتنا سیریس نہیں لیتے ہیں جتنا وہ دوسروں کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔تقریباًتین دہائیوں قبل وادی کے تمام سکولوں ااور دوسرے پرائیویٹ اداروں میں باضابطہ طور دینی اور اخلاقی تعلیم دی جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ منقطع کیا گیاہے ۔جب ہم سکول جایا کرتے تھے تو ایک پیریڈ دینیات کا ہوا کرتا تھا ۔اس پیریڈ میں اساتذہ کرام نہ صرف دینی تعلیم دیتے تھے بلکہ بچوں کو اخلاقی درس بھی دیا جاتا تھا۔لیکن موجودہ دور میں ایسا کسی بھی سکول میں نہیں ہورہا ہے ۔نتیجے کے طور پر آج کے بچے تیز مزاج ،باتونی ،شرارتی وغیرہ بن گئے ہیں ۔اسلئے جہاں سرکار کو اس بارے میں اقدامات اٹھانے چاہئے تو اسی طرح والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف مروجہ تعلیم دلائیں بلکہ ان کو دینی اور اخلاقی تعلیم سے بھی سنواریں تاکہ وہ فرمانبردار بن کر نہ صرف والدین ،بہن بھائیوں کی عزت و تکریم کرسکیں بلکہ پورے سماج میں اپنا ایک خاص مقام حاصل کرسکیں ۔ اخلاقی تعلیم دے کر ہم اپنے بچوں کو مکمل انسان بننے کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں ۔جس طرح والدین بچوں کی تعلیم پر زور دیتے ہیں اسی طرح ان کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی اختیار کریں ۔جب ایسا ہوگا تو بچے آگے چل نہ صرف اپنے والدین بلکہ ملک و قوم کا نام روشن کرینگے ۔











