وادی میں حالیہ ایام کے دوران خود کشی کی پے در پے وارداتیں رونما ہوئیںجو ایک حساس معاشرے کے لئے تشویش کی بات ہے ۔وادی میں ایسے واقعات کا تصور تک نہیں کیا جاتا تھا جو اب رونما ہورہے ہیں قتل کے واقعات بھی بڑھنے لگے اور خود کشی کا رحجان کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگا ۔گذشتہ دو ماہ میں تقریباً آٹھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو خود کشی کا نام دیا گیا ۔سوپور میں ایک دوشیزہ نے جہلم میں چھلانگ لگائی اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب تک اس کی لاش دریا سے برآمد نہیں کی جاسکی جبکہ اس کے کچھ دن بعد بارہ مولہ مین ایک اور عورت نے پل پر سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ۔اس کے کئی دنوں بعد بڈشاہ پل سے چھلانگ لگا کرشوپیان کی ایک جوان سال خاتون نے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ۔ابھی یہ خبر گونج ہی رہی تھی کہ راج باغ آرم واری کے فٹ برج سے کپوارہ کی ایک اور لڑکی نے جہلم میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی ۔اس کے دو دن بعد اسلام آباد میں ایک شخص نے چلتی ٹرین کے سامنے خودکشی کی کوشش کی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں ہسپتال میں اس کا فوری طور پراوپریشن کیا گیا اور اگلی صبح یعنی کل وہ ہسپتال میں ہی چل بسا ۔اس سے قبل سوپور میں ایک نوجوان نے خود کو پھانسی پر لٹکا کر اپنی زندگی ختم کردی۔ایسے واقعات یہاں کبھی رونما نہیں ہوتے تھے اس سے ہر ایک بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کشمیر ی معاشرے کی حالت کس قدر ابتر ہوگئی ہے ۔ان حالات کے لئے کس کو ذمہ دار ٹھہرایں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آج کل کے نوجوان لڑکوںاور لڑکیوں میں برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے ۔اگر والدین یا گھر کے دیگر بزرگ ان کو نصیحت کرتے ہیں یا کبھی کبھار زور سے بولتے ہیں تو اس کو برداشت نہ کرتے ہوے خودکشیاں کی جاتی ہیں ۔اسی طرح عشق میں ناکامی کو بھی اس طرح کے واقعات کے لئے ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے جبکہ منشیات کا استعمال کرنے والے بھی اکثر و بیشتر اپنی زندگی سے تنگ آکر خود کو ہی اس کی سزا دیتے ہیں ۔گھریلو تنازعات بھی خود کشیوں کی وجہ بنتے جارہے ہیں ۔جہیز اور اس سے جڑے دوسرے معاملات بھی سماج کے اس خطرناک کام کی وجہ بنتے جارہے ہیں۔اکثر بڑے بزرگوں کا کہنا ہے اور کتابوں میں بھی یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ماضی کو زمانہ جہالت کہا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں تعلیم کم تھی اور لوگ محنت مزدوری کرکے تھوڑا سا کماتے تھے اور کھاتے تھے لیکن اس وقت اسطرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے آج لوگ تعلیم یافتہ ہیں ان کو سب کچھ معلوم ہے کہ کس اقدام سے کیا ہوگا پھر بھی وہ خود کشی جیسے خطرناک اور حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں ۔اس کی روک تھام کے لئے سب سے پہلے والدین پر بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد اساتذہ اور پھر مساجد کے ایمہ حضرات اور خطیبوں پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہین کہ والدین اپنے بچوں کو ہر حالت میں سدھارئیں جبکہ ایمہ حضرات اور خطیب نمازوں کے بعد نوجوانون کی کونسلنگ کیا کریں اور انہیں خود کشی جیسے قبیح فعل کے گناہوں سے آگاہ کرکے ان کو بتائیں کہ اس طرح کی وار داتوں کے مرتکب افراد کس قدر گناہ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں اللہ نے انسان کو زندگی بخشی ہے اسے از خود اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی حق نہین ۔اسلئے اس گناہ عظیم سے بچنا لازمی ہے اور اگر کوئی مسلہ بھی ہو تو اسے افہام و تفہیم سے حل کیاجاسکتاہے ۔










