کانگریس کی ڈوبتی کشتی کےلئے راہل گاندھی کو ذمہ دار ٹھہرایا
سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے اہم ستون مانے جانے والے غلام نبی آزاد نے بھی کانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے قریب پانچ صفحات پر مشتمل کانگریس صدر سونیا گاندھی کے نام مکتوب ارسال کرتے ہوئے ان کی قیادت کی تعریف کی ۔ تاہم غلام نبی آزاد نے راہل گاندھی کی شدید تنقید کرتے ہوئے کانگریس کی ڈوبتی کشتی کےلئے انہیں ذمہ دار قرار دیا۔اطلاعات کے مطابق کافی وقت سے غلام نبی آزاد کے بارے میں چمہ گوئیاں ہورہی تھیں کہ وہ بھی کانگریس پارٹی سے جلد ہی کنارہ کشی اختیار کرنے والے ہیں اور یہ پیش گوئیاں آج پوری ہوئی جب کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے تقریباً پانچ دہائیوں تک کانگریس میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد آج پارٹی کو الوداع کہتے ہوئے کانگریس کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔مسٹر آزاد نے اپنے ساڑھے چار صفحات پر مشتمل خط میں گاندھی خاندان کے نوجوان رہنما راہل گاندھی پر کڑی تنقید کی لیکن سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی سے لے کر سونیا گاندھی تک گاندھی خاندان سے قریبی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی قائدانہ صلاحیت کی تعریف کی۔ انہوں نے پاٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو ایک تفصیلی خط لکھ کر پارٹی کی بنیادی رکنیت سے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔گاندھی خاندان کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی، سابق پارٹی لیڈر سنجے گاندھی اور آپ کے شوہر اور ملک کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ ان کے بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ انہوں نے محترمہ گاندھی کی قیادت کی بھی تعریف کی اور کہا کہ اپنے کام کی وجہ سے وہ ان کے بھی معتمد رہے۔خط میں راہل گاندھی پر سخت حملہ کرتے ہوئے، مسٹر آزاد نے کہا، ”آپ کی قیادت میں پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن بدقسمتی سے جب سے پارٹی میں مسٹر گاندھی کی انٹری ہوئی اور خاص طور پر 2013 کے بعد جب آپ نے ان کو پارٹی کا نائب صدر مقرر کیا، انہوں نے پارٹی میں مکالمے کے سلسلے کی روایت کا خاکہ ہی تباہ کر دیا۔ انہوں نے پارٹی پر قبضہ کرتے ہی تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں سے کنارہ کشی شروع کر دی اور ناتجربہ کار لیڈران ان کی قربت کا فائدہ اٹھا کر پارٹی کے تمام معاملات دیکھنے لگے۔مسٹر آزاد یہیں نہیں رکے اور انہوں نے مسٹر گاندھی کا نام لئے بغیر ان پرمزید سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے ‘ریموٹ کنٹرول ماڈل’ کے ذریعے متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے دوران جمہوری اداروں کو تباہ کردیاتھا، وہی شخص اب اسی ماڈل پر چلتے ہوئے کانگریس تنظیم کو برباد کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک سنا ہے کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ ان کے سیکورٹی اہلکار اور پی اے تک اہم فیصلوں میں شامل رہتے ہیں۔محترمہ گاندھی کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس ان کی رہنمائی اورمہارت میں اچھی طرح سے آگے ہی بڑھتی رہی، لیکن کانگریس کونقصان اس وقت شروع ہوا جب نئے اور ناتجربہ کار لیڈروں کو راہل گاندھی کی سرپرستی حاصل ہونے لگی اوروہ پارٹی کے اہم فیصلوں میں اپنی ناتجربہ کارمداخلت شروع کردی۔کانگریس میں شامل ہونے کے اپنے سیاسی کیریئر کے ابتدائی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر آزاد نے کہا کہ طالب علمی کے دوران وہ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس اور دیگر آزادی پسندوں سے متاثر تھے۔ انہوں نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ 1975-76 میں سنجے گاندھی کی درخواست پر انہوں نے جموں و کشمیر پردیش یوتھ کانگریس کے صدر کا عہدہ سنبھالاتھا۔ بعد میں انہوں نے مزید جدوجہد کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور مسلسل کانگریس کی مضبوطی کے لیے کام کرتے ہوئے پارٹی کی خدمت میں لگے رہے۔