خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد کہیں پر بھی عوام کی زندگیوں میں بہتری نہیں آئی/عمر عبداللہ
جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج خطہ پیر پنچال کے دورے کے دوسرے روز سرنکوٹ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد گذشتہ اڑھائی سال میں جموں وکشمیر کے اندر کہیں پر بھی عوام کی زندگیوں میں بہتری نہیں آئی، جس بہتری کے اعلانات کئے گئے تھے ہم آج بھی اُس کے انتظار میں ہیں، جو نوجوان 5اگست 2019سے پہلے بے روزگار رتھا وہ آج بھی بے روزگار ہے اور جن کے پاس روزگار تھا اُن میں سے بہت سارے اپنا روزگار کھو بیٹھے ہیں۔5اگست 2019سے پہلے جو غریب تھا وہ آج بھی غریب ہے، جو آرام سے دو وقت کی روٹی کماتا تھا اُس کیلئے آج اپنے کنبے کی کفالت کرنا مشکل ہوتا جارہاہے۔“ اجتماع سے پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر، سینئر لیڈران میں الطاف احمد، ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا ، تنویر صادق اور اعجاز جان نے بھی خطاب کیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ”آپ کشمیری پنڈتوں کا ہی حال دیکھئے،جو کشمیری پنڈت بھائی بی جے پی کے سوا کسی اور جماعت کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے، یہاں تک ہمارے تقریبات میں شامل ہوتے تھے لیکن ووٹ دینے وقت صاف صاف کہتے تھے کہ ہم آپ کو ووٹ نہیں دینگے ، ہمارا ووٹ بی جے پی اور مودی جی کیلئے ہے، کیا حال ہوااُن کا؟ایک پنڈت نوجوان کو چاڈورہ میں دفتر میں گھس کر گولی مار کر قتل کردیا گیااور جب پنڈت برادری کے لوگ اس اقدام کیخلاف اپنے غم و غصے اور حکومت سے جواب طلب کرنے کیلئے پُرامن احتجاج کرنے لگے تو ان پر لاٹھی چاری ، ٹیئر گیس اور طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیاگیا،اُن کے گھروں کے باہرفورسز کی ٹرکیں لگائی گئیں، جو پہلے صرف ہمارے ساتھ ہو تا تھا۔اِن لوگوں (بھاجپا کی مرکزی سرکار) نے کسی ساتھ انصاف نہیں کیا ہے“۔این سی نائب صدر نے کہا کہ ”ہم جب کہتے تھے کہ نیشنل کانفرنس ہی واحد جماعت ہے جو ان طاقتوں کو روکتی ہے، ہم جب کہتے تھے اگر دفعہ 370اور 35اے کو بچاکر رکھنا ہے تو پھر نیشنل کانفرنس مضبوط رکھنا ضروری ہے تو ہم یہ سب اقتدار حاصل کرنے کیلئے نہیں کہتے تھے ، ہم یہ اس لئے کہتے تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ جموںوکشمیر کے ازلی دشمن کیسی چالیں چل رہے ہیں اور کیسے حربے اپنا کر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں، ہمیں جس بات کا ڈر تھا آخر وہ سچ ثابت ہوا۔ اگر 5اگست 2019 ممکن ہوا تو وہ اس لئے ہوا کیونکہ نیشنل کانفرنس کمزور ہوئی۔اگر ہم کمزورنہیں ہوئے ہوتے تو یہ حال نہیں ہوا ہوتا۔“عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے جموںوکشمیر کی بیشتر آبادی زمینوں کے مالک بن گئے تھے ، اگر دفعہ370اور ہمارا اپنا آئین نہیں ہوتا تو یہ تاریخ اقدام ممکن نہیں ہو پاتا لیکن آج ڈر یہ ہے کہ ہماری زمینیں ہماری نہیں رہیں گی۔ ان لوگوں کو یہ برداشت نہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کے پاس اپنی زمینیں رہیں اور یہ اس کیخلاف بھی سازشیں رچا رہیں ہیں۔ لیکن انشاءاللہ ہم ان کی کوششوں کو پوری طریقے سے ناکام کردیں گے، ہم جموںوکشمیر کو اپنا درجہ واپس دلاکر ہی دم لیں گے اور جموں کشمیر کے عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں تعمیر و ترقی کا دور واپس لانے میں بھی کامیاب ہونگے۔عمر عبداللہ کہا کہ آج بھی ہمیں آپس میں لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے،جہاں باقی ملک میں ہندو اور مسلمان کو لڑوانے کی کوشش کی جاتی ہیں وہیں جموں وکشمیر میں مسلمان کو مسلمان سے لڑایا جارہاہے، ہم میں فرق پیدا کیا جارہاہے اور ہم میں دشمنی بڑھائی جارہی ہے، زیرویشن کے نام پر ہم میں تفرقہ ڈالا جارہا ہے ہمیں ایسی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہئے نہیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ نیشنل کانفرنس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہر طبقے کے لوگ یکساں ترقی اور خوشحالی دیکھے۔ ہمارا مو¿قف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اگر گوجر طبقہ کو ایس ٹی کا درجہ ملا ہے تو ان کے درجے میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے لیکن ساتھ ہی پہاڑی طبقہ کے لوگوں کو بھی ایس ٹی کا درجہ دیا جانا چاہئے کیونکہ دونوں طبقوں کو ایک جیسے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لوگوں کو الگ مت کیجئے، سب کیساتھ مساوی سلوک روا رکھئے۔عمر عبداللہ نے کہاکہ نیشنل کانفرنس نے 1983میں اُسی وقت مرکزی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ گوجروں کیساتھ ساتھ پہاڑیوں کو بھی ایس ٹی کا درجہ دیا جائے اور اس بارے میں تمام لوازمات بھی پورے کئے لیکن مرکزی حکومت نے یہاں بھی لیت و لعل کی پالیسی اپنائی ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ایس ٹی کا درجہ ہمارے حد اختیار میں نہیں تھا لیکن اس کے بعد میری حکومت کے دوران ہم نے اسمبلی کے آخری سیشن میں پہاڑیوں کیلئے 4فیصد اور او بی سی کیلئے ایک فیصد ریزرویشن کا بل منظور کیا اور اسے گورنر کے پاس منظوری کیلئے بھیج دیا جس کے فوراً بعد الیکشنوں کا انعقاد ہوا اور بھاجپا و پی ڈی پی کی حکومت معرض وجود آئی۔ جو بھاجپا والے آج پہاڑیوں کو لبھانے کیلئے ایس ٹی درجہ دلانے کی باتیں کررہے ہیں اُن بھاجپا والوں نے 2015سے لیکر آج تک گورنر ہاﺅس میں پڑی اُس فائل کو منظور کرانے کی زہمت گوارا نہیں کی جس میں پہاڑیوں کو 4فیصد ریزرویشن کو قانونی ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل سے منظوری دی گئی تھی۔ بھاجپا والے صرف لوگوں کے جذبات کا استحصال اور احساسات کا ناجائز فائدہ اُٹھانا جانتے ہیں ۔ اس موقعے پراو بی سی ونگ کے چیئرمین غلام نبی تیلی ،عمر عبداللہ کے ڈپٹی پولیٹکل سکریٹری مدثر شاہ میری اور مقامی لیڈران بھی موجود تھے۔