دفعہ370کی وراثت کیساتھ جڑے ہوئی لڑائی میں ملک کا ہر صحیح سوچ رکھنے والا باشندہ اور صحیح سوچ رکھنے والی ہر تنظیم ہمارا ساتھ دیں
ریاست کے اندر کچھ سیاسی جماعتوں نے دفعہ370کے مطالبے کو لیکر دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے کی بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ یہ لوگ کبھی ایک بات تو کبھی دوسری بات کہتے ہیں اور اس بارے میں اپنے مو¿قف میں آئے روز تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں، ہمیں ایسی جماعتوں سے کوئی اُمید بھی نہیںہے لیکن ہم اُن لوگوں سے ہماری لڑائی میں شامل ہونے کی اُمید رکھتے ہیں جو دفعہ370کی وراثت کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دفعہ370صرف جموں وکشمیر اور نیشنل کانفرنس کی ہی وراثت نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی بھی اُتنی ہی وراثت ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کا ہر صحیح سوچ رکھنے والا باشندہ اور صحیح سوچ رکھنے والی ہر تنظیم اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دے تاکہ ہم اس ریاست کو موجودہ دلدل سے نکال سکیں اور اس ریاست کو پھر ایک بار تعمیر و ترقی ، خوشحالی ، امن اور بھائی چارے کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ سی این آئی کے مطابق عمر عبداللہ خطہ چناب کے دورے کے ساتویں دن آج عوامی رابطہ مہم کے تحت رام بن میں ایک عظیم الشان پارٹی کنونشن سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر، صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران خالد نجیب سہروردی، سجاد کچلو، ڈاکٹر چمن لعل، تنویر صادق، اعجاز جان، ضلع صدر رام بن سجاد شاہین، ڈاکٹر شمشادہ شان اور دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔ عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق کی بحالی کی لڑائی آسان نہیں ہے لیکن کوئی بھی صحیح چیز حاصل کرنے میں دشواریاں معنی نہیں رکھتی ہیں، ”ہم آپ کے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی کبھی تھکیں گے، لیکن اس کیلئے ہمیں آپ کے تعاون اور اشتراک کی بھر پور ضرورت ہے“۔ این سی نائب صدر نے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگ اس وقت مایوسی کے بھنور میں ہے، انہیں موجودہ حالات میں روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی ہے،” ماں باپ پہلے ہی اپنی مصیبتوں سے دوچار اور پھر اپنے بچوں کے مستقبل کو لیکر پریشانِ حال۔ مزدور کو معلوم نہیں کہ کل اُس کو روزگار ملے گا یا نہیں؟ ٹھیکیدار بھی پریشان، کل تک وہ جو ٹھیکے لیتے تھے آج باہر کے ٹھیکیدار آکر اُن کے کام ہڈپ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جن لوگوں کو زرعی اصلاحات کے تحت شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے زمینیں دیں تھیں اُن کو آج یہ خدشات لاحق ہوگئے ہیں کہ کہیں اُن کو بھی زمینوں سے بے دخل نہ کیا جائے۔ مال مویشی رکھنے والے گوجر بکروال طبقوں کے لوگ اس فکر میں مبتلا کہیں انہیں اُن جنگلوں سے بے دخل نہ کیا جائے جہاں وہ سالہاسال سے رہائش پذیر ہیں۔تعلیم یافتہ بچے اس بات سے مایوسی اور نااُمیدی کے شکار کہ اُن کے روزگار کے مواقعے باہر کے اُمیداروں چھین کر لے جائیں گے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم کچھ نہیں مانگتے ہم صرف انصاف مانگتے ہیں، اگر5اگست 2019کو جموں وکشمیر کے دو ٹکڑے کرکے 2مرکزی زیر انتظام علاقے قرار دیئے گئے تو ان میں فرق کیوں کیا جارہاہے؟ لداخ میں وہی دفعہ370والا سٹیٹ سبجیکٹ قانون لاگو ہے، وہاں کی زمینیں محفوظ، وہاں کا روزگار اور تعلیمی سکالرشپ وہاں کے بچوں کیلئے محفوظ لیکن جموں وکشمیر میں دوسرا نظام کیوں؟کیا ہمارے بچوں کا حق نہیں کہ اُن کے روزگار کے مواقعوں کو محفوظ رکھا جائے