کابل/ ایجنسیز/ ایک ایسے وقت میں جبکہ افغانستان کے نئے طالبان رہنماو¿ں اور خطے کے اہم ملکوں کے مابین سرحد پر تناو¿ کے آثار نمایاں ہیں، سابق سویت دور کے کئی سال بعد پیر کو روسی زیر قیادت تاجک افغان سرحد کے نزدیک فوجی مشقیں شروع ہوئیں۔ لگتا یوں ہے کہ افغانستان کے دیگر شمالی ہمسایوں نے طالبان کی قیادت کو فی الواقع حقیقت کے طور پر تسلیم کر کے کابل کے ساتھ کام چلانے کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ تاجکستان نے طالبان کی شدت پسند تحریک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق سرحد کے دونوں جانب فوجی تعینات کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے رائٹرز کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ فوجی مشقیں ‘کلیکٹو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کے تحت کی جا رہی ہیں، ان میں 5000 سے زیادہ فوجی حصہ لے رہے ہیں، جن میں سے نصف کے قریب روس کے فوجی ہیں۔ خبر رساں ادارے کو یہ بات روسی اور تاجکستان کی دفاعی وزارتوں کے حکام نے بتائی ہے۔ ان چھ روزہ فوجی مشقوں سے قبل روس اور اس کے وسط ایشیائی اتحادی اگست اور ستمبر میں اس سے کچھ کم سطح کی مشقیں کر چکے ہیں۔ روس کو یہ پریشانی ہے کہ کہیں اسلامی شدت پسندی کی یہ تحریک سابق سویت یونین کی وسط ایشیائی ریاستوں تک نہ پھیل جائے، جنھیں روس جنوبی خطے کی اپنی دفاعی سرحدیں خیال کرتا ہے۔ سویت دور کے اس سابق ساتھی ملک میں روس کا ایک فوجی اڈا موجود ہے اور تاجکستان نے اسے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ سرحد پار سے کسی حملے کی صورت میں وہ روس کی مدد کے لیے تیار ہے۔ادھر اسی ہفتے روس میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ماسکو جانے کے لیے تیار ہے، جس میں چین، پاکستان، بھارت اور ایران شرکت کریں گے، جب کہ ایک اعلیٰ روسی عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ انھیں اس اجلاس سے کسی قسم کی پیش رفت کی کوئی توقع نہیں ہے۔