قانونی ماہرین اور کوٹھدار بھی وضاحت کے متقاضی ،محکمہ امور صارفین کا حکومت سے رجوع کا ارادہ
سرینگر//2جون/ ٹی ای این / لائیو سٹاک اور گوشت کے کاروبار کے حوالے سے جمعرات کو جاری کئے گئے ایک سرکاری آرڈر ،جس کے ذرےعے 1973کے مٹن کنٹرول ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر محکمہ امورصارفین اور دیگر متعلقین کے قیمتوں ککے تعین اور نفاذ کے اختیارات ختم کئے گئے،میں بہت سارا ابہام پائے جانے کے بعد محکمہ اس آرڈر کی تفصیلی وضاحت کیلئے سرکار سے دوبارہ رجوع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔خبررساں ایجنسی ٹی ای این سے بات کرتے ہوئے ایک اعلی آفیسر نے کہاکہ گوشت کے کاروبار اور اسکی قیمتوں کے حوالے سے گذشتہ روز جو آرڈڑ جاری ہوا ہے ،اس میں ابھی تک ابہام ہے اور اس کی وضاحت ابھی محکمہ کے پاس نہیں آئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ لازمی اشیاءایکٹ کے تحت صرف گوشت ہی نہیں بلکہ دیگر اشیاءجن میں خوردنی اشیاءزیادہ ہیں ،کے قیمتوں کے تعین اور نفاذ سے متعلق اب کس کے پاس اختیارات ہونگے یا ان سبھی اشیائے لازمہ کو ڈی کنٹرول کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے وضاحت نہیں ہوئی ہے اور اب محکمہ دوبارہ سرکار سے رجوع کرے گا اور اس سارے معاملے کی وضاحت کے بعد ہی گوشت کے کاروبار سے متعلق نئے طریقے رائج ہونگے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکار نے جمعرات کو ایک آرڈر زیر نمبر 7175010fcsca/legal/49/2023بتاریخ یکم جون 2023کے ذریعے جموں وکشمیر منٹن (لائسننگ اینڈ کنٹرول ) ایک1973کو کالعدم قرار دیا اور محکمہ امور صارفین کو گوشت کی قیمتوں کا تعین کرنے اور انہیں مارکیٹ میں نافذکرنے سے دور رہنا چاہئے

۔اس حوالے سے کوٹھدار طبقہ نے اپنے رد عمل میں کہاہے کہ آرڈر کے ذرےعے بظاہر گوشت کا کاروبار ڈی کنٹرول ہوچکا ہے لیکن اس آرڈر میں کچھ ابہام ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے ۔آل کشمیر ہول سیل مٹن ڈیلرس یونین کے صدر معراج الدین گنائی نے ٹی ای این کو بتایا کہ یہ ابھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ محکمہ زراعت نے سرکار کے ساتھ جو کمیونکیشن کی ہے ،وہ لائیو سٹاک سے متعلق ہے یا اس ڈریسڈ مٹن کے بارے میں اور حکومت نے جو آرڈر جاری کیا ہے کیا اس میں لائیو سٹاک یا ڈریسڈ مٹن بھی ہے ۔معراج الدین نے کہاکہ ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا ۔مذکورہ نوٹفکیشن کے معاملے میں قانونی ماہرین بھی واضح نہیں ہیں ۔آئینی و قانونی امور کے ماہر ایڈوکیٹ ریاض خاور نے کہاکہ ایک بات واضح ہے کہ 1973کے مٹن کنٹرول ایکٹ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اب اس بڑے حجم کے کاروبار کو کون سا قانون کنٹرول کرے گا ۔یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کیا یہ صرف رسد اور طلب اور مارکیٹ کی مرضی پر چھوڑا جائے گا یا اس پر کسی طرح سے کوئی کنٹرول باقی رکھا جائے گا ۔ایڈوکیٹ ریاض خاور کے مطابق آرڈر مزید وضاحت کا متقاضی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوشت کا کاروبار اب وادی کشمیر میں ایک بڑے حجم کا احاطہ کرتا ہے ۔اعداد وشمار کی رو سے بیرونی منڈیوں سے یومیہ4سے 5کروڑ روپے مالیت کا گوشت درآمد کیا جاتا ہے اورر اگر اتنے بڑے پیمانے پر ہورہے کاروبار کو ڈی کنٹرول کیا جارہا ہے تو صارفین کا خدا ہی حافظ ہے۔عام لوگوں کا کہنا ہے کہ یوں بھی محکمہ امور صارفین گوشت کو سرکاری قیمتوں پر مارکیٹ میں نافذ کرنے کی سعی میں ناکام تھا تاہم عام صارفین قصابوں اور کوٹھداروں کے خلاف آواز اٹھا بھی سکتے تھے لیکن اب اگر انہیں آزاد کردیا گیا تو صارفین کے حقوق کی آواز بھی دب جائے گی ۔