اس قسم کا کوئی تبصرہ نہیں جیسا کہ اعلیٰ امریکی حکام عوامی سطح کرتے ہیں: ماہر پاکستانی امور
واشنگٹن: ۶۱ اکتوبر (ایجنسیز) واشنگٹن میں پاکستانی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ جوبائیڈن کی جانب سے سامنے آنےوالا حالیہ بیان کافی عجیب ہے، یہ اس قسم کی بات اور تبصرہ نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر اعلیٰ امریکی حکام عوامی سطح کرتے ہیں۔ مائیکل کوگلمین نے کہا کہ وہ یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتے کہ جو بائیڈن کے اس بیان کی وجہ کیا بات ہوسکتی ہے لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ انہیں انٹیلی جنس اداروں نے ایسی بریفنگز دی ہوں کہ جن میں پاکستان میں بڑھتی سیاسی تفریق و انتشار، معاشی بحران اور دوبارہ سر اٹھانے ہونے والی دہشت گردی کا حوالہ دیا گیا ہو، ان عوامل کے ساتھ ملک کی جوہری صلاحیت سے متعلق مغربی ممالک کے دیرینہ خدشات امریکی صدر کے اس بیان کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کا بغیر کسی ربط اور سیاق و سباق کے یہ بیان بظاہر پاکستان میں حالیہ دنوں میں نظر آنےوالے موجودہ رجحانات پر رد عمل ہو سکتا ہے جس کا شاید اس کی جوہری طاقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بیان یقینا امریکا کے بارے میں پاکستانی عوام کے تاثرات کو بہتر بنانے میں مدد نہیں کرے گا لیکن مجھے خدشتہ ہے کہ اس سے دو طرفہ تعلقات پر بہت منفی اثر پڑے گا۔ امریکی سفیر کو طلب کرنے کے اسلام آباد کے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ یہ ہی وہ وقت ہے جبکہ اسلام آباد میں سفیر کی واپسی سے مدد ملے گی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس پر ردعمل بھی کافی مفاہمانہ ہے۔ امریکی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ جو بائیڈن کا سلپ آف ٹنگ لگتا ہے یہ کوئی دانستہ بیان محسوس نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جوہری تحفظ کیلئے کیے گئے اقدامات میں بہتری کے باوجود دیگر شعبوں میں عدم استحکام امریکی پالیسی سازوں کیلئے پریشان کن ہے خاص طور پر ان حالات میں جب کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے خطرات مستقل موجود ہیں۔