متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بچوں کا مستقبل خطرے میں
سرینگر//وادی میں بچہ مزدوری پر اگرچہ سرکار کی جانب سے پابندی عائد ہے تاہم شہر سرینگر سمیت وادی کے دیگر قصبہ جات میں مختلف کارخانوں اور دکانات و نجی دفتروں میں چھوٹے بچوں سے کام کرائے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور بچوں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کررہے این جی اوز اور دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے بجائے ان سے کام کروانے سے سماج کو آگے چل کر مختلف سماجی بُرائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وائس آف انڈیا کے مطابق وادی میں بچہ مزدوری پر اگرچہ سرکار کی جانب سے پابندی عائد ہے اور کسی کو بھی چھوٹے بچوں سے کام کروکر ان کے تعلیمی مستقبل کو مخدوش بنانے کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن وادی میں بچوں سے کام کرانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ شہر سرینگر سمیت وادی کے دیگر قصبہ جات میں بچوں کو مختلف کارخانوں میں کام کرایا جارہا ہے ۔ جن بچوں کی عمر سکول جانے کی ہے انہیں دکانوں کارخانوں و نجی دفاتر میں چائے بنانے صفائی اور دیگر چھوٹے بڑے کاموں پر لگایا گیا ہے ۔ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے شہر سرینگر میں مختلف کاموں میں لگے ہوئے ہیں بچوں سے مزدوری کا کام لیا جاتا ہے ۔ ریڈوں پر ان سے میوہ جات اور دیگر اشیاءفروخت کروائی جارہی ہے ۔ کئی بچے مختلف کارخانوں میں گاڑیوں کی میکنک کا کام لیا جاتا ہے ۔ اس کےلئے اگرچہ کئی غیر سرکاری تنظیمیں مورد وجود میں آئی ہیں جو بچوں سے کام کرنے والوںکے خلاف کارروائی کرتے ہیں تاہم وادی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے مذکورہ ادارے بچوں کے ساتھ کیا جانے والا استحصال خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ایسے غریب اور بے سہارا بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے ۔ اس ضمن میں کئی نامور شخصیات سے جب بات کی گئی تو انہوںنے اس پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سماج میں بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے بجائے ان سے کام لیاجاتا ہے آگے چل کر یہ سماج بڑی تباہی کادیکھ سکتا ہے کیوں کہ جس قدر سماج میں رہے رہ بچے ذہین تعلیم یافتہ اور بااخلاق ہونگے اُسی قدر سماج مختلف سماجی بُرائیوں سے پاک ہوتا ہے ۔ جن بچو ں سے بچن میں ہی کام لیا جاتا ہے وہ اکثر غلط ہاتھوں کے میں پڑجانے سے مختلف بُرائیوں میں مبتلاءہوجاتے ہیں نتیجتا سماج میں بُرائیاں جڑ پکڑتی ہے