تحریر:امان ملک
خواتین کو روایتی طور پر گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال پر مامور کیا جاتا رہا ہے اور انہیںگھرکی چار دیوار ی میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے جب کہ فیصلہ سازی اور عوامی زندگی میں مردوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ تاہم یہ رجحان آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے اور اب خواتین کو مختلف شعبوں میں حصہ لینے کے زیادہ مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں خواتین کو گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، اور تنازعات سے متعلق تشدد سمیت سماجی بھید بھاﺅ اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یہ ان کی عوامی زندگی میں مکمل طور پر حصہ لینے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے اور ان کی حفاظت اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ خواتین گھریلو تنازعات اور گھریلو تشدد کی وجہ سے موت کو گلے لگارہی ہیں اور آئے روز اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں جن میں شادی کے بعد لڑکیوں کہ جہیز و دیگر معاملات کی بناءپر ٹارچر کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں خواتین کو سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں کم نمائندگی دی جاتی ہے حکمرانی اور پالیسی سازی میں حصہ لینے کے محدود مواقع ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ اس کی وجہ اسکولوں اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی کمی ،غربت اور ثقافتی اصول ہیں جو لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔اگرچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی آج کل لڑکیاں تعلیمی شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں اور امتحانی نتائج لڑکوں سے بہتر رہتے ہیں اس کے باجود بھی لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی میں استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے ۔ اسلئے جموں و کشمیر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم تعلیم تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ خاص طور پر اگر ہم ذکرکریں دیہی علاقوں میں لڑکیوںکہ تعلیم کے وسائل کم ہی دستیاب ہے ۔تاہم جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، ناکافی وسائل، اور اعلیٰ تعلیم کے محدود مواقع شامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات شروع کیے ہیں جن کا مقصد تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے سرکار نے کئی اقدامات اُٹھائے ہیں ان اقدامات میں اسکالرشپ، مفت تعلیم اور لڑکیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنا شامل ہیں۔ تعلیم خواتین کو علم، ہنر اور اعتماد کے ساتھ بااختیار بناتی ہے، جو انہیں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے اہم فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے۔ تعلیم خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور مالی طور پر خود مختار ہونے کے لیے ضروری مہارتوں سے آراستہ کرتی ہے۔ تعلیم خواتین کی صحت کے نتائج اور بہبود کو بہتر بنا سکتی ہے۔ جیسے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مرد کو اگر تعلیم دیں گے تو یہ صرف ایک فرد کی تعلیم تک محدود رہتا ہے اور اگر ایک لڑکی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے تو یہ ایک کنبہ کو تعلیم دینے کے برابر ہے ۔ تعلیم یافتہ خواتین صحت مند طرز زندگی کا انتخاب کرنے اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی حاصل کرنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں جس سے زچگی اور بچوں کی اموات کی شرح کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کئی فرسودہ روایات کے خاتمہ کا بھی ذریعہ بنتی ہے ، تعلیم صنف پر مبنی دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو توڑنے میں مدد کر سکتی ہے جو خواتین کے مواقع کو محدود کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین صنفی عدم مساوات کو چیلنج کرنے اور اپنے حقوق کی وکالت کرنے کے لیے بہتر طور پر خود اعتمادی کے ساتھ آگے آسکتی ہیں۔تعلیم سے خواتین نہ صرف سماجی بدعات اور مظالم سے لڑسکتی ہیں بلکہ ایک نئے معاشرے کی تشکیل بھی دے سکتی ہے ۔ یہ اسکولوں، کمیونٹیز اور کام کی جگہوں میں صنفی مساوات کو فروغ دے کر، معاشرے میں خواتین کے تعاون کو اجاگر کرنے اور ان کی کامیابیوں کا تذکرہ کرکے کیا جاسکتا ہے ۔ خواتین کو بااختیار بنانے میں ایک اور اہم عنصر معاشی آزادی ہے۔ جموں و کشمیر میں خواتین مختلف وجوہات کی بناءپر معاشی سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ نہیں لے پا رہی ہیں جن میں ملازمت کے محدود مواقع بھی شامل ہیں۔ تاہم حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں خواتین میں کاروباری صلاحیت کو فروغ دینا، تربیت اور ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام فراہم کرنا اور مختلف شعبوں میں ملازمت کے مواقع پیدا کرنا شامل ہیں۔ اس کےلئے یوٹی انتظامیہ نے سٹارٹ ایپس جیسے پروگرام متعارف کئے ہیں اور کئی جگہوں پر خواتین گروپ بناکر کام کرتی ہیں جس سے ان کی معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے ۔ جموں و کشمیر کی حکومت نے کئی اسکیمیں اور پروگرام شروع کیے ہیں جن کا مقصد خطے میں خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینا اور معاشرے میں ان کی حیثیت کو بہتر بنانا ہے۔ یہ اسکیم والدین کو ان کی بچیوں کی تعلیم کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہے