اشرف غنی کا افغانستان سے فرار کے ایک برس بعد پہلا انٹرویو
کابل :۱۱ اگست (ایجنسیز) افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے ملک سے فرار ہونے کے ایک برس بعد پہلے انٹرویو میں خود کو ملک چھوڑ کر جانے والوں میں سب سے آخری شخص قرار دیا ہے جبکہ اپنے بیرونِ ملک جانے کا ایک بار پھر دفاع کیا ہے۔ ایک سال قبل افغانستان پر طالبان کے قابض ہونے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد سابق صدر نے پہلی بار عوامی سطح پر گفتگو کی ہے۔ انہوں افغانستان کے پشتو اور دری زبان کے میڈیا ادارے ’اے بی این‘ کو انٹرویو دیا ہے۔ اس حوالے سے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ملک کے آئین کے مطابق وہ افغانستان کے صدر تھے۔ اس لیے جب تک افغان عوام قانونی طور پر کسی اور اقتدار منتقل نہیں کر دیتے اس وقت تک میں ہی صدر ہوں۔ انٹرویو میں جب ان سے طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کی حکمتِ عملی سے متعلق سوال کیا گیا تو سابق صدر نے بتایا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں تھا کیوں کہ طالبان پہلے ہی اس حوالے سے مجوزہ منصوبے کو مسترد کر چکے تھے۔ اس منصوبے کے تحت افغانستان کی عوامی جمہوریہ اور طالبان میں شراکتِ اقتدار کا طریقہ کار طے ہونا تھا۔ ان کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ کابل میں طالبان کے داخل ہونے سے قبل وزیرِ دفاع، حکومت کے اعلیٰ ترین حکام سمیت ان کی کابینہ کے ارکان ملک سے فرار ہو چکے تھے۔ وہ ان سب میں سب سے ا?خری شخص تھے جنہوں نے ملک چھوڑا تھا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ قوم کو خدشات میں نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اور وہ اپنی حفاظت کو بھی مدِ نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ تاریخ کا دردناک انجام ایک بار پھر نہ دھرائی جائے۔واضح رہے کہ طالبان 1996 سے 2001 تک افغانستان پر پہلے بھی حکومت کر چکے ہیں۔ 1996 میں جن طالبان کابل میں داخل ہوئے تھے اس وقت انہوں نے افغانستان کے صدر محمد نجیب کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں پھانسی دے دی تھی۔