اقوام متحدہ/منگل کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دو سال قبل طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے سابق افغان حکومتی اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز کے 200 سے زیادہ اہلکار ماورائے عدالت قتل ہو چکے ہیں۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصیمشن کے مطابق، طالبان کی طرف سے جن گروپوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے وہ سابقہ فوج، پولیس اور انٹیلی جنس فورسز رہے ہیں۔یو این اے ایم اے نے 15 اگست 2021، جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا، اور جون 2023 کے آخر کے درمیان افغان حکومت کے سابق اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف کم از کم 800 انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویز کیں۔دو دہائیوں کی جنگ کے بعد جب امریکی اور نیٹو فوجی ملک سے انخلاء کے آخری ہفتوں میں تھے تو طالبان نے پورے افغانستان میں کامیابی حاصل کی۔ امریکہ کی تربیت یافتہ اور حمایت یافتہ افغان افواج طالبان کی پیش قدمی کے سامنے دم توڑ گئیں اور سابق افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔”افراد کو ڈی فیکٹو (طالبان) سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا گیا۔ کچھ کو حراستی مراکز میں لے جایا گیا اور دوران حراست قتل کیا گیا، دوسروں کو نامعلوم مقامات پر لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاشوں کو یا تو پھینک دیا گیا یا خاندان کے افراد کے حوالے کر دیا گیا۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے رپورٹ کے ساتھ جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا کہ یہ "سابق حکومت اور سیکورٹی فورسز سے وابستہ افراد کے ساتھ سلوک کی ایک سنجیدہ تصویر پیش کرتا ہے”۔ترک نے کہا، "اس سے بھی بڑھ کر، جب کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا، یہ لوگوں کے اعتماد کے ساتھ خیانت ہے۔” انہوں نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں پر زور دیا – ملک کے "ڈی فیکٹو حکام” مزید خلاف ورزیوں کو روک کر اور مجرموں کا محاسبہ کرتے ہوئے ‘ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو برقرار رکھیں’ ۔اپنے اقتدار پر قبضے کے بعد سے، طالبان کو کسی خاص مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور انہوں نے اندرونی تقسیم سے گریز کیا۔