ایک مقامی خبررساں ایجنسی نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وادی کی آٹھ معروف آبی پناگاہیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں لیکن ان کو بچانے کے لئے متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے ۔اس بارے میں ایجنسی نے مرکزی حکومت کی متعلقہ وزارت کے ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ وادی کشمیر میں اب ماحول کی کثافت بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی آبی پناہ گاہوں پر اس کے منفی اثرات پڑنے لگے ہیں ۔ان ذرایع نے بتایا کہ دریاے جہلم ،دریائے لدر ،کے علاوہ خوشحال سر ،براری نمبل ،آنچار ،جھیل ولر اور ہوکر سر مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ۔ان ذرایع نے یہ بھی بتایا کہ اگر ان کو بچانے کی ابھی سے سنجیدگی کے ساتھ کوششیں نہیں کی جاینگی تو اگلی دہائی میں وادی پانی کے ان ذخائیر کے بغیر نظر آے گی۔مرکزی وزارت کی رپورٹ میں خاص طور پر شہر کے بیچوں بیچ بہنے والی ژونٹھ کوہل کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی اور کہا گیا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ژونٹھ کوہل ایک وقت لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا کرتی تھی لیکن آج اس کا پانی اس قدر گدلا اور گندہ ہوچکاہے وہ ناقابل استعمال بن چکاہے ۔گندگی اور غلاضت اس میں اس قدر سما گئی ہے کہ اس نے نالے کی شکل اختیا رکرلی ہے ۔اسی طرح دریاے جہلم اور نالہ لدر کا حال ہے رپورٹ میں کہا گیا کہ چونکہ سنٹرل پولیوشن بورڈ کی طرف اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وادی کی یہ پناہ گاہیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں ان کا حجم آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے اس کے کناروں پر ناجائیز قبضہ کیاجانے لگاہے اور گندگی اور غلاضت ان میں اس قدر سمائی گئی ہے کہ ان کا پانی بھی ناقابل استعمال بن گیا ہے ۔شہر کے بیچوں بیچ بہتے والا دریاے جہلم اپنی ہیت کھو چکا ہے اپنی خوبصورتی سے محروم ہوچکا ہے اور اس میں ہر گذرتے برس پانی کی سطح بتدریج کم ہوتی جارہی ہے ۔نالہ لدر کا بھی یہی حال ہے جس لدر کے پانی پر نظر نہیں ٹھہر تی تھی اور جو اس قدر تیز رفتاری سے بہتا تھا اور چٹانوں سے ٹکر ا ٹکرا کر شور مچاتا ہوا کھیتوں کو سیراب کرتا ہوا جاتاتھا آج خاموش ندی کی طرح بہہ رہا ہے گندا اور غلاضت سے بھر پور۔مرکزی حکومت نے وادی کی آٹھ آبی پناہ گاہوں کی تباہی کی ذمہ داری سنٹرل پولیوشن بورڈ پر ڈالتے ہوے کہا کہ کبھی جن ندی نالوں اور دوسرے آبی ذخایر کا بلوریں پانی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا اور ان پانیوں کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتاتھا لیکن آج یہ سب کی سب آٹھ پناہ گاہیں اپنا اسی فیصد وجود کھو چکی ہیںجو کچھ باقی رہ گیا ہے وہ انتہائی گندا ہے جھیل آنچار کا وجود ختم ہوچکا ہے ۔ہوکر سر سمٹ کر صرف دو چار کلو میٹر رہ گیا ہے ہوکر سر کے ختم ہونے کا اثر مہاجر پرندوں پر بھی پڑ سکتا ہے جو سرمائی ایام میں آسٹریلیا،روس ،کوریا اور دوسرے علاقوں سے یہاں آکر ڈیرا ڈالتے ہیں اور موسم بہار کے آتے آتے واپس اپنے وطن چلے جاتے ہیں۔خوشحال سر بھی سمٹ گیا ہے اسلئے سنٹرل پولیوشن بورڈ کے علاوہ حکومت جموں کشمیر کو چاہئے کہ متذکرہ بالا آٹھ آبی پناہ گاہوں کو بچانے کے لئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔










