قانون کا نفاذ ’ذات پات، طبقے، جنس اور نسل‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حقوق انسانی کارکن
اروندھتی رائے کے مطابق آج کا بھارت الٹی سمت میں پرواز کرنے والا وہ طیارہ ہے جو حادثے کا شکار ہو کر رہے گا۔ ان کے مطابق بھارت میں قانون کا نفاذ ’ذات پات، طبقے، جنس اور نسل‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔بکر پرائز حاصل کرنے والی مشہور بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے نے موجودہ دور کے بھارت کا موازنہ ایک ایسے ہوائی جہاز سے کیا ہے، جو پرواز کے دوران سمت مخالف میں اڑنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ”طیارہ حادثے کی جانب بڑھ رہا ہے۔“ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو ‘نفیس قوانین‘ کی ایسی سرزمین مانا جاتا ہے، جہاں قانون کا نفاذ دراصل ’ذات پات، طبقے، جنس اور نسل‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔جیل میں قید انسانی حقوق کے معروف بھارتی کارکن جی این سائی بابا کی نظموں اور خطوط پر مبنی کتاب ’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کی تقریب اجرا منعقد ہوئی اور رائے نے اپنے ان خیالات کا اظہار اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اروندھتی رائے نے کہا کہ ایک دور تھا جب سن 1960 کے عشرے میں بھارت دولت اور اراضی کی تقسیم نو جیسی ’حقیقی انقلابی تحریکوں‘ کی قیادت کر رہا تھا اور اب حال یہ ہے کہ ملکی رہنما محض ’پانچ کلو چاول اور ایک کلو نمک‘ بانٹتے ہوئے ووٹ مانگتے ہیں اور انتخابات جیت بھی رہے ہیں۔’دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘ اور ’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نیس‘ جیسے ناولوں کی مصنفہ کا کہنا تھا، ”میں نے حال ہی میں اپنے ایک پائلٹ دوست سے پوچھا تھا، ’کیا آپ جہاز کو پیچھے کی طرف اڑا سکتے ہیں؟‘ وہ زور سے ہنسا تھا۔“ رائے نے کہا کہ تب انہوں نے کہا تھا، ”یہاں بالکل یہی ہو رہا ہے۔“اس بھارتی مصنفہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”اس ملک کے رہنما ہوائی جہاز کو الٹی سمت میں اڑا رہے ہیں، سب چ?ز?ں گر رہی ہیں اور ہم ایک حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔“باسٹھ سالہ رائے کے مطابق بھارت کو ایک ’نفیس قوانین‘ کی سرزمین کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ وہ ملک ہے، ’جہاں آپ کی ذات، طبقے، جنس اور نسل‘ کو دیکھتے ہوئے قوانین کو مختلف انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا، ”آج ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ہم ایک ایسے پروفیسر کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جو 90 فیصد مفلوج ہیں اور سات برسوں سے جیل میں ہیں۔ ہم یہی تو کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ بتانے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ہم کس طرح کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے۔“’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کے مصنف پروفیسر جی این سائی بابا انسانی حقوق کے معروف بھارتی کارکن ہیں۔ وہ جسمانی طور پر تقریبا 90 فیصد معذور ہیں اور نقل و حرکت کے لیے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی نظموں اور خطوط پر مبنی کتاب ’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کے ان دنوں کافی تذکرے ہو رہے ہیں۔سن 2017 میں مہاراشٹر کی ایک عدالت نے ماو¿ نواز باغیوں سے تعلق رکھنے اور ’ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے‘ جیسی سرگرمیوں سے متعلق الزامات کے تحت انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔وہ دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں تاہم گزشتہ برس انہیں ان کی سروس سے بھی برخاست کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی سزا اور ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔’کمیونسٹ کو شکست نہیں دی جا سکتی‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری ڈی راجا بھی اس کتاب کے اجرا کی تقریب میں موجود تھے۔ انہوں نے سائی بابا کی فوری رہائی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا اور کہا کہ آج کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کمیونسٹوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر شکست دے سکتی ہے، تو اس کی بہت بڑی غلطی ہے۔ڈی راجا کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ کچھ لوگوں کو ’اربن ماو¿ نواز‘، ‘اربن نکسلائٹ‘، ‘ملک دشمن‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں جیلوں میں ڈال کر اور اذیتیں دے کر وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”میں انہیں خبردار کرتا ہوں کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایک کمیونسٹ کو مارا تو جا سکتا ہے، لیکن کسی کمیونسٹ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔“