جموںوکشمیر نیشنل کانفرنس تینوں خطوں کے عوام کی ترجمان جماعت رہی ہے اور آج بھی تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مفادات، احساسات اور جذبات کیلئے برسر جہد ہے۔ اسی جماعت کے تاریخی اور انقلابی اقدامات کی بدولت پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سماج میں اونچا مقام حاصل ہوا اور ہر ایک شعبے میں مساوی بنیادوں پر نمائندگی ملی۔ اس جماعت نے کسی بھی مذہب، طبقے یا علاقے کے لوگوں کیساتھ ناانصافی نہیں کی بلکہ ہر ایک کیساتھ مساوات پر مبنی سلوک روا رکھا۔ ان باتوں کا اظہار صدرِ نیشنل کانفرنس نے جموںمیں او بی سی اور ای سی طبقوں سے تعلق رکھنے والے وفود کیساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔ او بی سی وفد کی قیادت پارٹی کی متعلقہ سیل کے صدر عبدالغنی تیلی جبکہ ایس سی وفد کی قیادت پارٹی کی متعلق ونگ کے صدر وجے لوچن کررہے تھے۔ اس موقعے پر پارٹی کے صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران مشتاق بخاری اور صوبائی یوتھ صدر اعجاز جان موجود تھے۔ وفود نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مختلف نوعیت کے مسائل و مشکلات سے آگاہ کیا اور انہوں نے موقعے پر ہی متعلقہ حکام معاملات اُٹھا کران کا سدباب کرانے کی تاکید کی۔ اس کے علاوہ دونوں وفود نے حدبندی کمیشن کی سفارشات سے متعلق اپنے تحفظات بھی اُجاگر کئے۔ او بی سی وفد کی قیادت کررہے عبدالغنی تیلی نہیں کہا کہ او بی سی طبقے کو نئی حدبندی میں مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے اور اس طبقے کیلئے کوئی بھی نشست مخصوص نہیں رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ او بی سی طبقوں سے وابستہ لوگوں کو ہر سال او بی سی زمرہ کیلئے دستاویزات جمع کرنے پڑتے ہیں جبکہ دیگر زمروں سے اس طرح ہر سال دستاویزات نہیں مانگے جاتے ہیں۔ ایس سی وفد کی قیادت کررہے شری وجے لوچن نے بھی حدبندی کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات اُجاگر کرتے ہوئے کہاکہ کمیشن نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت سرحدی اور پہاڑی علاقوں میں ایس سی نشستیں مخصوص رکھی ہیں جبکہ جموں کے شہری علاقوں میں قیام پذیر ایس سی آبادی کو بھاجپا کے حقیر مفادات کیلئے مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وفد میں شامل افراد کو بھروسہ دلایا کہ اُن کے مطالبات کو لوک سبھا میں اُٹھائیں گے اور ان کا سدباب کرانے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ حدبندی سے متعلق وفود کے تحفظات کو جائز قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ نیشنل کانفرنس نے حدبندی کمیشن کی رپورٹ سرے سے ہی مسترد کی ہے اور کمیشن کو اپنے جواب میں اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ کمیشن کا قیام ہی غیر قانونی ہے اور کمیشن کی تمام مشق بھاجپا کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی مذموم مشق ہے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کو ناانصافی پر مبنی اپنی پالیسی کو ترک کرنا چاہئے کیونکہ اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکتے۔